تحریر: بجار خان مری
اللہ رب العزت نے جہاں اس کائنات کو بے انہتا حسن سے نواز کر عروج پر پہنچایا وہاں اس کے دلکشی کے پیچھے زوال بھی ہے۔ مگر قدرت کے ان پوشیدہ نظام کو جاننا انسان کی سمجھ سے بالا ترہے ۔ انسان ہمیشہ اپنی سرکشیوں میںمگن رہا ہے ، اسے کیا خبر کہ اچانک یہ عیش و آرام یہ خوشیاں خوبصورت محل اوربے انتہا شفیق والدین اوربہن بھائی یوں اک پل میں چھن جائینگے۔ کبھی قطرینہ تو کبھی سونامی اور کبھی زلزلے کی صورت میں۔
داوی کشمیر کو قدرت نے بے پناہ حسن اور ہریالی سے آراستہ کیا اس لئے اس دلکش وادی کو دنیا میں جنت کا لقب ملا۔ پانچ لاکھ کی آبادی پر مشتمل یہاں کے لوگ دشمنوں کی تکلیفوں کے باوجود بہت اچھی اور خوش باش زندگی گزار رہے تھے ۔گرمیوں کا موسم شروع ہوتے ہی یہاں کی رونقیں بڑھ جاتی ہزاروں سیاح مختلف ممالک سے اپنی زندگی کے بے رنگ لمحوں کو رنگین اور یاد گار بنانے کے لئے اس خوب صورت وادی کا رخ کرتے تھے ۔ یہاں کے سر سبز و شاداب پہاڑ چشموں کا صاف و شفاف اور ٹھنڈا پانی تازہ ہوا خوشگوار ماحول یقینن انسان کو اک روحانی سکون بخشتا تھا۔
مگر ایک منحو س صبح نے اس حسن اور خوشیوں کو ہمیشہ کے لئے دھندلا کر دیا ۸ اکتوبر ۲۰۰۵کی صبح حسب معمول ہر انسان اپنی معمول کی زندگی پر چل نکلا ننھے منھے پھول جیسے پیارے بچے اپنے روشن مستقبل کے خواب لے کر اسکولوں اور کالجوں میں پہنچ گئے ۔آج کسی کو آنے والے لمحوںکے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ پل بھر میں اس جنت کا نقشہ بدلنے والا ہے اپنے بچھڑنے والے ہیں اک قیامت برپا ہونے والی ہے سب کچھ ختم ہونے والا ہے ۔
اچانک ۸بج کر ۵۲منٹ پراک خوفناک آواز آئی زمین نے منہ کھولا اور ہر چیز خاک میں مل گئی پہاڑ پگل گئے گھڑیاںاس قیامت خیز منظر کی گواہی کے لئے وہیں ساقت ہو گئی ایک بار تو پوری وادی کلمہ طیبہ اور استغفراللہ کے ورد سے گونج اٹھی نفسا نفسی کا عالم تھا جو کچھ لوگ باہر تھے وہ اپنے ہوش حواس کھو بیٹھے کیونکہ اچانک جہاںتک نظر جاتی ہے وہاں تک علاقے کا نقشہ بدل چکا تھا لوگ اپنے اپنے گھر ڈھونڈنے لگے ہر طرف چیخ وپکارتھی سب کچھ زمین بوس ہو چکا تھا دیکھنے والی آنکھیں یہ دیکھ کر بھی یقین نہیں کر پا رہی تھی ہر طرف ملبے کے نیچے سے اللہ اکبراللہ اکبر اور بچائو بچائو کی آوازیں آرہی تھی مگر یہ چند لوگ جو یہ منظر کو دیکھنے کے لئے زندہ بچ گئے ان سب کو نکالنا ان کے بس سے باہر تھا بے بسی کے عالم میں کھڑے یہ لوگ اپنے پیاروںکی چیخوں کو سن رہے تھے جو کہ ان کے سامنے تڑپ تڑپ کر جان دے رہے تھے ۔قیامت کا منظر کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے سب کچھ تہس نہس ہو چکا تھا چیخیں زمین میں دبتی گئی اور ا س طرح ایک ہنستی بستی اور خوبصورت وادی جسمیں کبھی خوشیوں کا مسکن تھا اور ننھے منھے بچوں کی پیاری شراتوں سے گونجا کرتی تھی آج وہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی ۔غم کی حکمرانی شروع ہو چکی اپنے بچھڑ گئے کوئی ملبے کے نیچھے کوئی موت کی آغوش میں کوئی زخموں سے چورچور خواہ ہر کوئی بے یار و مدگار اللہ کو پکار رہا تھا۔
مگر آج اللہ کی مرضی کے سامنے کسی کی کچھ نہ چل سکھی ورنہ یہ انسان جو کہ اپنے بچے کی ایک آہ پر پوری پوری رات جاگ کر گزارتے تھے مگر آج وہ بچہ چیخ چیخ کر دم توڑ گیا اور والدین کچھ نہ کر سکے ہزاروں معصوم اور جوان زندگیاں چند سیکنڈوں میں سینکڑوں من مٹی میں دب کر اس بے وفا زندگی کی قید سے ہمیشہ کے لئے آذادہو گئیںوہ وادی جس کو دیکھنے کے لئے ہر آنکھ بے تاب تھی جس کی تصویریں ہر البم کی زینت ہوتی تھی جس کے حسن اور دلکشی کے وجہ سے اس کا نام دنیا میں جنت رکھا گیا ہے
مگر اس تباہ کن زلزلے کے بعد یہ جنت نظیر وادی وادی موت میں بدل گئی اب یہاں ہر طرف انسانیلاشیں اور ہڈیاں نظر آتی ہیں اس ہولناک زلزلے میں ایک لاکھ سے ذائد لوگ اپنی جانیں کھو بیٹھے اور اسی ہزار سے ذائید لوگ زخمی ہوئے۔
جو لوگ کبھی زندگی کی ہر بہار لوٹا کرتے تھے کروڑوں میں کھیلتے تھے اچھے سے اچھا کھاتے تھے اور اچھے سے اچھا پہنتے تھے آ ج وہ کھلے آسماں تلے سخت سردی میں پیٹ بھرنے کو ایک خشک روٹی اورتن ڈھانپنے کو پرانے کپڑے کے محتاج ہو گئے ۔ اب ان کے دل سے ہمیشہ ایک ہی دعا نکلتی ہے کہ اللہ رب العزت کسی دشمن کو بھی یہ دن نہ دکھائے ۔ زلزلہ تو گزر گیا مگرزندگی کیلئے بہت سی مشکلات چھوڑ گیا جگہ جگہ بکھری ہوئی انسانی لاشوںسے تعفن پھیلنے لگا ۔
زندہ انسانوں کے زخموںمیںکیڑے پڑ گئے انسان زندہ رہ کر بھی موت کی وعائیںمانگنے لگے۔ زلزلے سے متاثرہ علاقوں کی طرف جانے والے راستے بھی لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بند پڑ گئے۔ بھوکے پیاسے کئی دن گزرنے کے بعد آخر ہمت جواب دے گئی زندہ لوگوںنے وہاںسے نکلنے کا سوچا مگر اپنے عزیزوںکی لاشوںکو دفنائے بغیر جانا بھی ضمیر گوارہ نہیں کر رہا تھا مگر کتنے لاشوںکو دفناتے اب تو زخمی بھی قریب المرگ تھے ننھے معصوم بھی زندگی کی رونقیں دیکھنے سے پہلے موت کے قریب جا رہے تھے۔زندگی بہت کھٹن ہو گئی ارد گرد تلخیوں کے سو ا کوئی ساتھ نہیں دے رہا تھا بار بار کانپتے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھتے توبے اختیار آنکھوںسے نہ تھمنے والا آنسوںکاسیلاب امنڈ اٹھتا لڑکھڑاتی زبان سے یہ الفاظ ادا ہو رہے اے میرے رب ہمیں معاف کر دے اب ہم پر سے یہ عذاب اٹھا لے۔ مگراللہ رب العزت کی طرف سے اب تک یہ امتحان ختم نہیں ہوا ۔اوپر سے تیز بارش اور سخت سردی آن پڑی۔
اب یہاں زندہ رہنا اور بھی مشکل ہو رہا تھا ایک طرف بہن بیٹیوں کی بے گورو کفن لاشیں دوسری طرف گھر ملبےکا ڈھیر اورادھر معصوموں کی پرورش ۔جب یہ قیامت خیز مناظر دنیا نے ٹی وی پر دیکھے تو انسانیت خوف خدا سے لزر گئی اسی خوف کو دل میں لے کر ہر شخص نے بارگاہ خداوندی میں سر بسجود ہو کر اپنے گنائوں کی معا فی مانگی۔اور دل کھول کر عطیات و صدقات کی صورت میں اپنے آفت ذدہ بھائیوں کی مدد کرنے لگے اور اللہ عزوجل سے مغفرت و رحم کی دعائیں مانگی ۔ یہ سوچ کر کہ کل یہ دن ہم پر بھی آسکتا ہے کئی رضاکارمتاثرہ جگہ لاشوں کو دفنانے پہنچ گئے مگر پھر بھی اتنے ذیادہ تعداد میں لاشو کو شرعی طریقے سے دفنانا ناممکن تھا آخر انسانیت بے بسہو گئی اور مشینوں کا سہارا لینا پڑا کرینوں کے ذریعے زمین کو کھود کر کئی کئی لاشوں کو اکٹھا دفنایا گیا ۔
کئی لاشیں اب بھی اپنے گھروں کے ملبے تلے ہیں یوں اپنے گھر ہی اپنے مدفن بنے ۔سکول اور کالج ہزاروں بچو اور بچیوں کے اجتماعی قبرستان بنے۔ شہر مٹی کے ڈھیر بن گئے زندگی بے رونق ہو گئی حسرتیں دم توڑ گئی اور کشمیر ویران ہونے لگا۔ دریائوں کا میھٹا پانی لاکھوں لوگو ںکے آنسوں سے نمکین ہو گیا ،ہوائوںسے خون کی بو آنے لگی خوبصورت سر سبز پہاڑ وں سے مٹی اور دھول اڑنے لگی ۔ ہر آنکھ اشکبار تھی اپنے کھو گئے ہزاروں لوگوں کی خدمت کرنے والے مہمان نواز آج امداد کے منتظر تھے۔ زلزلے کے بعد کئی نئے رشتوں نے بھی جنم لیا ،کوئی بے کس کوئی بے سہارا کوئی یتیم کوئی بیوہ کوئی مجبور کوئی معذوراور کوئی لا وارث کہلانے لگا ،۔
زندگی نے نیا رخ اختیار کرلیا ہمدردی کوچ کر گئی انسانیت کا وقار ختم ہونے لگا ہر شخص اپنی سوچ رہا تھا۔
کچھ درندہ صفت انسان ان مجبور اور آفت ذدہ لوگوں کی مجبوریوں سے نا جائز فائدہ اٹھانے لگے ۔
لوگوں کا اپنی جان مال کے ساتھ ساتھ اپنی عزت کو محفوظ کرنا مشکل ہو گیا۔زلزلے لگاتار آرہے تھے بچے کچے گھروں میں رہنا خطرے سے خالی نہیں تھا ،مگر کھلے آسمان تلے سخت سردی میں رہنا موت کو دعوت تھی یہ سب کچھ کوئی شوق نہیں بلکہ اک بہت بڑی مجبوری تھی،بے بس انسان نہ چائتے ہوئے بھی سب کچھ برداشت کر رہا تھا اور وہ کرتا بھی کیا ،یہ حکم الہی تھا یا قہر خداوندی یا پھر اللہ عزوجل کی طرف سے انسانیت کا کڑا امتحان۔ کشمیر کے مکینوںنے سکھ کا دن کیوں نہیں دیکھا ان کے آشیانے سلامت کیوں نہیں رہتے ۔ کبھی آندھی کبھی دشمن کی گولیاںتوکبھی زلزلہ انہیں بکھیر دیتا ہے ۔ غموں کو یہاں کی خوشیاں ذیادہ دیر برداشت کیوں ہوتی۔ ان مائوں کے آنسوں خشک کیوں نہیں ہوتے یہ سسکیاں یہ آہیں مسکراہٹوں میں کیوں نہیں بدل سکتی؟ کیاہمارے اعمال ا س چیز کے ذمہ دار ہیں کیا انسان ہی انسان کا دشمن ہے ۔
جب اللہ کی طرف سے کو ئی مصیبت آتی ہے تو رنگ نسل مذہب اور دشمنیوں کو بھلا کر سب ایک انسانیت کا نعرہ لگاتے ہیں ایک دوسرے کے دکھ میں شریک ہو کر آ نسوں بہاتے ہیں اور ہمدردیاں جتاتے ہیں اور ہر مذہب میںاپنے طریقے صرف امن کی دعائیں مانگی جاتی ہیں اور جب اللہ رب العزت کسی کی سن کر سب کو معاف کر دیتا ہے تو پھر انسان ایک دوسرے کومعا ف نہیں کرتے ایک دوسرے کی خوشیاں برداشت نہیں کرتے کیوں؟
کیوں ایک دوسرے کو تکلیف دیتے ہوئے بے رحم ہو جاتے ہیں۔ کاش یہ انسانیت اور یہ محبت سدا انسان کے دلوں میں ہوتی کاش یہ جنگیں یہ نفرتیں یہ قتل و غارت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتی کائنا ت پر امن ہو ۔ایسا ممکن ہے اگر ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ ہم کسی کو کوئی تکلیف نہیں دینگے یہ زمین جس کے لئے ہم لڑتے ہیں خون کرتے ہیں یہ ہماری ہمیشہ نہیں ہے