ڈاکٹر فضل داد کاکڑ بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کے شعبہ اورل اینڈ میگزیلوفیشل سرجری میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ کوئٹہ انڈکس کے نمائندے نے ڈاکٹر سے سرکاری ہسپتالوں کے حالات راز جاننے اور لوگوں کو ان سے آگاہ کرنے کے حوالے سے بات چیف کی ہے جوکہ قارئین کوئٹہ انڈکس کی نظر ہے۔
انٹرویو: دین محمد وطن پال؍شمشیر میوند
بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال شعبہ اورل اینڈ میگزیلوفیشل سرجری کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فضل داد کاکڑ کا کہنا ہے نجی ہسپتالوں کے برعکس سرکاری ہسپتالوں میں آلات صرف معیاری نہیں بلکہ عالمی معیار کے مطابق ہے ، اگر مجھے خود ضرورت پڑے تو بھی اپنے اسی سرکاری ہسپتال کے آلات کا استعمال کروں گاجہاں میں خود دوسرے مریضوں کا علاج کرتا ہوں۔ بیماریوں کے پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ غربت اور لاشعوری ہے، جس کے خلاف ہم سب کو جدوجہد کرنی ہے
کوئٹہ انڈکس کے بات چیت کے دوران ڈاکٹر فضل داد کاکڑ نے بتایا کہ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کا اس لیے زیادہ رش رہتا ہے کیوں کہ یہاں پر زیادہ تر غریب اور متوسط طبقے کے لوگ علاجکے لیے آتے ہیں جو نجی ہسپتالوں میں علاج نہیں کرسکتے۔ لوگوں میں بیماریوں کے پھیلائو کا سب اہم وجہ غربت اور ان میں شعور و آگاہی کی کمی ہے اس طرح اگر خاندان میں ایک شخص اس کا شکار ہوجاتا ہے تو باقی لوگوں میں بھی خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ بعض بیماریاں ایسی جیسا کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی یہ زیادہ تر اُن لوگوں میں پائے جاتے ہیں جو غربت کا شکار ہے یا پھر غربت کے لکیر سے نیچے زندگی گزارتے ہیں۔ چھوٹے ہسپتالوں میں خطرناک بیماریوں سے بچائو کے حوالے سے احتیاطی تدابیر بہت کم اپنائے جاتے ہیں۔ جوکہ ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
ڈاکٹر فضل داد کاکڑ نے بتایا کہ جب افغان پر بارڈر لوگوں کی آمدورفت زیادہ تھی تو ہمارے زیادہ تر مریض افغانستان سے آتے تھے جن میں بیشتر تعداد زخمیوں، منہ اور گلے کے کینسر میں مبتلا لوگوں کی ہوتی تھی۔ وہ دانت درد جیسے چھوٹے چھوٹے بیماریوں کا علاج کم کرتے ہیں جب وہ سخت بیماری میں مبتلا ہوتے تھے تب وہ یہاں آتے تھے۔ جبکہ یہاں کی اگر بات کی جائے توکوئٹہ، کچلاک، مستونگ، خضدار، ژوب اور لورالائی کے مریض زیادہ تر آتے ہیں۔
سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر اور دیگر عملہ کے تربیت سے متعلق اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فضل داد کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس موجود ٹیم جن میں ماہر ڈاکٹرز، سرجن اور دیگر عملہ شامل ہیں ان پر ہمیں پورا اعتماد ہے۔ کہ وہ اپنے کام میں مہارت رکھتے ہیں اور ہمارے پاس موجود آلات بین الاقوامی معیار کے مطابق اور جدید ہے ۔ سرکاری ہسپتالوں میں موجود آئٹوکلیومشینیں اعلیٰ معیار کے ہے ۔ اس مشینری کو چلانے کے لیے جب تک تیکنیکی ماہر شخص نہ ہو تب ممکن نہیں کہ اس کو صحیح طریقے سے چلایا جاسکے ۔
ہم نے اس کیلئے ماہرین کی ایک پوری ٹیم بنائی ہے ۔انہوں نے بتا یاکہ اگر آئٹوکلیو مشینوں کو چلانے والا ماہر نہ تو خطرہ ہے کہ ایک مریض سے دوسرے تک خطرناک اور لاعلاج بیماریاں پھیل جائے۔ ہمیں ٹیم اور آلات پر اتنا پختہ یقین ہے کہ اگر مجھے خود اپنی سرجری کرنا پڑے تو میں انہی آئٹوکلیو مشینوں سے جن آلات کی سٹیلائزیشن ہوئی ہے یہی آلات استعمال کروں گا جو ہم دوسرے مریضوں کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ ڈاکٹر، سرجن اور تیکنیکی ٹیم میں سے اگر کسی سے بھی کوئی کوتا ہی ہوجائے یا پھر آلات کے استعمال کے بعد صحیح طریقے اس کی صفائی نہ ہو تو جراثیم کے پھیلائو کا راستہ روکنا ممکن نہیں ہے۔ لہذا پوری ٹیم کی ذمہ داری ہے کہ وہ درست طریقے سے کام کریں ۔
بی ایم سی ہسپتال اور سول ہسپتال کے ڈینٹل یونٹ میں موجود آلات سے متعلق اسسٹنٹ پروفیسر نے کوئٹہ انڈکس کو بتایا کہ جب سرکاری ہسپتالوں میں ماہر لوگ ہوجو ہسپتال میں موجود آلات کے استعمال، تحفظ اور اس کے صفائی اور دیگر اہم معاملات کے بارے میں جانتے ہو تو میرے خیال میں سرکاری ہسپتال میں سب سے بہتر طور پر علاج کیا جاسکتا ہے۔ استعمال کے بعد اگر آلات کا صفائی اور سٹیلائزیشن صحیح طریقے سے نہ ہو تو ممکن ہے کہ ایک شخص کی بیماری دوسرے میں منتقل ہو۔ اس لیے لازمی اس کام کیلئے ایک تیکنیکی ماہر موجود ہو جو آلات کے صفائی اور استعمال کے بارے میں جانتا ہو۔ اگر آج کا موازہ کل یعنی 10سال کے ساتھ کیا جائے تو آج کے حالات بہت بہتر ہے۔
لوگوں میں شعور بیدار ہوئی ہے اور ہسپتالوں میں خاص کر سرکاری ہسپتالوں میں بین الاقوامی معیار اور قواعد کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں نجی ہسپتالوں سے زیادہ مہنگے اور اعلیٰ معیار کے آلات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کیوں سرکار کسی بھی مشینری کے خریداری کے وقت سب سے اس کا معیار اور دیرپا استعمال کو دیکھاجاتا ہے تاکہ اسے لمبے عرصے تک استعمال میں لایا جاسکے۔ لیکن نجی ہسپتالوں میں ایسا نہیں ہوتا کیوں کہ بزنس کی خاطر ایسے آلات کا استعمال کرتے ہیں جس سے عارضی طور پر استعمال کیا جاسکے۔