ہر سال 8 مئی کو دنیا بھر میں عالمی یومِ تھیلیسیمیا منایا جاتا ہے تاکہ اس موروثی بیماری کے بارے میں شعور اجاگر کیا جا سکے، مریضوں اور ان کے اہل خانہ کی حوصلہ افزائی کی جا سکے، اور پالیسی سازوں کی توجہ اس اہم مسئلے کی طرف مبذول کروائی جا سکے۔
یہ دن سب سے پہلے 1994 میں تھیلیسیمیا انٹرنیشنل فیڈریشن (TIF) نے متعارف کرایا، جو نہ صرف اس مرض سے وفات پا جانے والے افراد کی یاد میں منایا جاتا ہے بلکہ تھیلیسیمیا سے متاثرہ افراد کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ایک عزم کی تجدید بھی کرتا ہے۔ اس سال کا موضوع “تھیلیسیمیا کے لیے اکٹھے: کمیونٹی کا اتحاد، مریضوں کو اولین ترجیح” ہے، جو اس بات کی یاد دہانی ہے کہ یہ مرض صرف ایک طبی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی اور انسانی چیلنج بھی ہے۔
تھیلیسیمیا پاکستان میں سب سے زیادہ پایا جانے والا موروثی مرض ہے، جو پہلی بار 1960 میں رپورٹ ہوا۔ محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 5 فیصد پاکستانی آبادی تھیلیسیمیا مائنر کیریئر ہے، جبکہ ایک لاکھ کے قریب بچے تھیلیسیمیا میجر کے مریض ہیں، جن میں سے چالیس ہزار خیبر پختونخوا سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ کزن میرجز کی زیادہ شرح ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اس مرض پر کوئی قومی سطح کا سروے نہیں ہوا، اس لیے اصل تعداد کا علم نہیں۔ اور سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ ایک قابلِ روک تھام بیماری ہے، مگر قومی پالیسی کے فقدان کے باعث کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
تھیلیسیمیا کے مریضوں کو ہر دو سے چار ہفتے میں خون کی منتقلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ مسلسل منتقلی اگرچہ مریض کی زندگی بچاتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ مریضوں کو ہیپاٹائٹس بی، سی اور دیگر انفیکشنز کے خطرے میں بھی ڈال دیتی ہے۔ پاکستان میں خون کے عطیات زیادہ تر فیملی ریپلیسمنٹ ڈونرز سے حاصل کیے جاتے ہیں، جبکہ دنیا میں رضاکارانہ عطیات کا رجحان ہے۔ اس کے علاوہ کم معیار کی ٹیسٹنگ کٹس کے استعمال کی وجہ سے خون سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
ایک تحقیقی مقالہ کے مطابق تھیلیسیمیا کے مریضوں میں ہیپاٹائٹس بی کی شرح 4.13 فیصد اور ہیپاٹائٹس سی کی شرح 29.79 فیصد ہے، جو کہ نہایت تشویشناک اعداد و شمار ہیں۔
ایران، قبرص، اور اٹلی جیسے ممالک نے تھیلیسیمیا پر قابو پانے کے لیے مؤثر قومی پالیسیاں مرتب کیں، جن میں پری میریٹل اسکریننگ، جینیاتی مشاورت، عوامی آگاہی، اور محفوظ خون کی فراہمی شامل ہیں۔ پاکستان کو بھی ایسے ہی ماڈل کو مقامی ضروریات کے مطابق اپناتے ہوئے ایک جامع قومی تھیلیسیمیا پالیسی بنانی چاہیے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ تھیلیسیمیا کو صرف ایک طبی مسئلہ نہیں بلکہ ایک انسانی و معاشرتی مسئلہ سمجھا جائے۔ مریضوں کی فلاح کے لیے صرف طبی علاج نہیں بلکہ ذہنی، معاشی اور سماجی سہولیات بھی مہیا کی جائیں۔
حکومت کو چاہیے کہ شادی سے قبل تھیلیسیمیا کی اسکریننگ کو لازمی قرار دے، سرکاری سطح پر رجسٹری قائم کرے، تھیلیسیمیا مراکز میں سہولیات فراہم کرے، خون کی محفوظ منتقلی کو یقینی بنائے، اور رضاکارانہ خون کے عطیات کے کلچر کو فروغ دے۔
تھیلیسیمیا صرف ایک بیماری نہیں بلکہ لاکھوں خاندانوں کا درد ہے۔ اس عالمی دن کے موقع پر ہمیں تجدیدِ عہد کرنا ہوگا کہ ہر بچے کو اس بیماری سے بچانے کے لیے قومی سطح پر حکمتِ عملی اپنائیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ حکومت، ماہرینِ صحت، اور عوام مل کر ایک ایسا مستقبل تشکیل دیں گے جہاں تھیلیسیمیا کا خاتمہ ایک خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت ہو۔