کوئٹہ: دین محمد وطن پال سے
بلوچستان حکومت کو آخری چند ماہ میں شدید چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، حکومت کی وجود خطرے میں پڑگئی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد اسمبلی سیکرٹریٹ جمع، حکومتی پارٹی سمیت اتحادی پارٹی کے رکن نے بھی تحریک پر دستخط کئے ہیں۔ صوبائی وزراء کی جانب سے ذرائع کے نام پر سوشل میڈیا پر استعفوں کی خبروں کی گردش، وزراء کی جانب سے تردید نہ تصدیق۔ حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے صلاح و مشوروں کا عمل جاری۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری کے خلاف مسلم لیگ نون سمیت اتحادی پارٹی اور اپوزیشن کے 14 اراکین صوبائی اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد بلوچستان اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی ہے۔ ان اراکین اسمبلی میں میر عبدالقدوس بزنجو، میر عبدالکریم نوشیروانی، آغا محمد رضا، میر خالد لانگو، نوابزادہ طارق مگسی، ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی، امان اللہ نوتیزئی، اخترمینگل، میر حمل ہلکمتی، زمرک خان، حسن بانو، شاہدہ رئوف، خلیل الرحمن دمڑ اور عبدالمالک کاکڑ نے تحریک عدم اعتماد پردستخط کئے ہیں۔ جسے بلوچستان صوبائی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کردی گئی ہے۔ تحریک عدم اعتماد جمع کرنے والے اراکین اسمبلی نے 40 اراکین کی اکثریت کا دعویٰ بھی کیا ہے ۔
سوشل میڈیا پر ذرائع کے نام سے چلنے والی خبروں کے مطابق صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی اور صوبائی وزیرماہی گیری سرفراز ڈومکی نے استعفیٰ دیدیا ہے۔ جبکہ صوبائی وزیر نواب چنگیز مری کی جانب سے بھی کل کسی وقت مستعفی ہونے کے اعلان کی خبریں آرہی ہے۔ صحافیوں کی جانب پوچھنے پر صوبائی وزیر داخلہ نے استعفیٰ دینے کی خبر کو غلط قرار دیا ہے تاہم انہوںنے باقاعدہ طور پر اس کی تردید بھی جاری نہیں کی۔ جبکہ دوسری جانب سے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے تحریک عدم اعتماد پردستخط کرنیوالے اپنے معائون خصوصی برائے ایکسائز و ٹیکسیشن امان اللہ نوتیزئی کو برطرف کرکے نوٹی فیکیشن کردیا ہے۔
بلوچستان اسمبلی میں کل65 نشستیں ہیں۔ جن میں اس وقت 21 نشستیں مسلم لیگ نون کے پاس ہے جبکہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی 14، نیشنل پارٹی کی 11، جمعیت علمائے اسلام فےکی8، پاکستان مسلم لیگ (ق)کی 5، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی 2 نشستیں ہیں ۔ جبکہ عوامی نیشنل پارٹی، مجلس وحدت مسلملین، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)کی ایک ایک نشست ہے جبکہ ایک رکن اسمبلی آزاد نشست پر ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے علاوہ مسلم لیگ (ق) ،پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی موجودہ مخلوط حکومت کا حصہ ہیں۔ جن کے کل نشستوں کی تعداد 42 بنتی ہیں جن میں مجلس وحدت مسلمین بھی مسلم لیگ نون کے حمایتی ہے تاہم انہیں وزارت نہیں دی گئی ہے۔ ۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کو بچانے کیلئے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی بھی میدان میں آگئے۔ آج ایم پی اے ہاسٹل میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان کیخلاف عدم اعتماد کی مخالفت کا اعلان کیا اور کہا کہ تحریک عدم اعتماد کو ہرصورت ناکام بنائیں گے۔ ثناءاللہ زہری کو اپنی قیادت سےوفاداری کی سزا دی جارہی ہےکسی کو اچھا لگے یا برا،نوازشریف ملک کے سب سےمقبول لیڈرہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک غیر جمہوری اقدامات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
نیشنل پارٹی کے صدر میر حاصل بزنجو نے وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا حصہ نہیں بنیں گے۔ میر خالد لانگو کے تحریک عدم اعتماد پر دستحط کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ اس کی تحقیات کررہے ہیں۔ واضح رہےکہ بلوچستان کی موجودہ مخلوط حکومت میں شامل نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان 2013ء میں مری میں ڈھائی ڈھائی سال وزیراعلیٰ کے عہدوں پر فائز رہنے کا معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اپنی مدت پوری کرچکے ہیں۔ جبکہ مسلم لیگ نون کے نواب ثناء اللہ خان زہری حکومت کی مدت پوری ہونے تک وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز رہیں گے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں اطراف میں گٹھ جوڑ کا سلسلہ جاری ہے ۔ دونوں جانب سے اتحادیوں کے درمیان صلاح و مشوروں کا عمل بھی جاری ہے۔ ٓواضح رہے کہ وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور وزراء کے استعفوں کا عمل بلوچستان حکومت کیلئے سخت ترین چیلنج ہے ۔ حکومت میں یہ ہلچل اور وزراء کے استعفے مارچ میں ہونیوالے سینیٹ کے انتخابات پر بھی اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ جس کی وجہ سے موجودہ حکومت کو سینیٹروں کے انتخاب میں مشکلات پیدا ہوسکتے ہیں ۔ جوکہ موجودہ مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کیلئے نقصان ثابت ہوگا۔