کوئٹہ: دین محمد وطن پال سے
میڈیکل کالجز انٹری ٹیسٹ میں کامیاب ہونیوالے امیدواروں کا کہنا ہے انٹری ٹیسٹ میں کامیاب امیدواروں کی فہرستیں 2 دن کے اندر اندر آویزاں کئے جائیں بصورت دیگر کالج میں والدین کے ہمراہ دھرنا دینگے۔ کچھ سیاسی اور با اثر شخصیات اس ٹیسٹ کو متنازعہ بناکر 3 نئے میڈیکل کالجز کے پروجیکٹ کو سبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش کے ساتھ قابل طلباء و طالبات کے حق پر ڈھاکہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ میں کسی قسم کی بے ضابطگی نہیں ہوئی ہے۔
کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران انٹری ٹیسٹ میں کامیاب ہونیوالے امیدواروں محمد شاید، زین اللہ، شیر آدم ، شیر عالم، رونڑا کاکڑ اور دیگر کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کی جانب سے انٹری ٹیسٹ ہائیر ایجوکیشن کے حوالگی کے وقت کسی قسم کی کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا۔ گزشتہ 20 سالوں سے بی ایم سی کے کسی بھی ٹیسٹ پر کوئی اعتراض نہیں ہوا لیکن اب نئے کالجز کے قیام کی وجہ سے وا ویلا کیا جارہا ہے۔ ٹیسٹ میں بد نظمی کا وا ویلا کرنیوالوں نے نہ ایف آئی آر کٹوائی ہے اور نہ ہی ڈپٹی کمشنر کے رپورٹ میں کسی کو مجرم ٹھہرایا گیا ہے۔ جو ٹیسٹ کو مثبت ظاہر کرتا ہے۔ ٹیسٹ کے بعد کسی نے بھی نہ تو اعتراض جمع کروایا اور نہ ہی سینٹر پر کوئی احتجاج ہوا۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ میں کسی قسم کی بے ضابطگی نہیں ہوئی ہے۔ کچھ سیاسی اور با اثر شخصیات اس ٹیسٹ کو متنازعہ بناکر 3 نئے میڈیکل کالجز کے پروجیکٹ کو سبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش کے ساتھ قابل طلباء و طالبات کے حق پر ڈھاکہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک پرائیوٹ اکیڈمی سوشل میڈیا پر ٹیسٹ کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرکے اس کو متنازعہ بنانے کی مذموم کوشش کررہی ہے۔ احتجاجی دھرنے میں بیٹھے لوگوں کا تعلق بھی نجی اکیڈمی سے ہے جنہیں اکیڈمی مالکان کی سرپرستی حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیسٹ ایڈیشنل سیکرٹری صحت رئوف بلوچ ، بی ایم سی اور ایچ ای سی انتظامیہ، بلوچستان یونیورسٹی انتظامیہ اور دیگر سینئر ڈاکٹروں کی نگرانی میں ہوا ہے۔ تمام کامیاب امیدوار مطالبہ کرتے ہیں کہ کامیاب امیدواروں کی فہرستیں 2 دن کے اندر اندر آویزاں کئے جائیں بصورت دیگر کالج میں والدین کے ہمراہ دھرنا دینگے۔ ہائی کورٹ وزیراعلیٰ اور حکومت بلوچستان سے مطالبہ ہے کہ ٹیسٹ کو منسوخ نہ کیا جائے۔یہ میرٹ پر آ نیوالے طلباء اور طالبات کے ساتھ نا انصافی ہے جس کی منسوخی کو میرٹ کا قتل اور سازش تصور کیا جائے گا۔
طلبہ کاکہنا تھا کہ ٹیسٹ میں 4800 امیدواروں نے حصہ لیا جن میں صرف 400 امیدوار پاس ہوں گے لیکن اعتراض صرف 200 طلباء اور طالبات کو ہے اور ان کا احتجاج کرنا میرٹ میں آنیوالے امیدواروں کے ساتھ سراسر نا انصافی ہے۔ ٹیسٹ کی منسوخی سے بولان میڈیکل کالج اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی ساکھ مجروح ہوگی۔ ٹیسٹ کے دوران تمام طلباء اور طالبات کو عالمی معیار کی بنیاد پر ضلعی سطح پر بٹھائے گئے تھے اور تمام کے کتابچیں مختلف رنگوں کے تھے۔ تمام کے سوالات ایک دوسرے سے مختلف تھے۔