کوئٹہ؛ خبرنامہ
تحفظ اطفال ہم سب کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہونی چاہیے۔ جو خیالات اور جذبات ہم اپنے گھر کے بچوں کے بارے میں رکھتے ہیں دوسروں کے بچوں کا بھی اس طرح خیال رکھنا معاشرے کے ہر فرد کی بنیادری ذمہ داری بنتی ہے۔ کیوں کہ بچے ہمارے مستقبل کے معمار ہیں۔ ان خیالات کا اظہار رکن صوبائی اسمبلی معصومہ حیات نے محکمہ سوشل ویلفیئر اور یونیسیف کے تعاون سے منعودہ ایک روزہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
رکن صوبائی اسمبلی معصومہ حیات کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں بچوں کی کم عمری میں شادی بہت بڑا معاشرتی مسئلہ ہے۔ شادی کیلئے بلوغت کے ساتھ ساتھ ذہنی پختگی کا ہونا اشد ضروری ہے۔ کم عمر کی شادیوں کی وجہ سوے کئی معاشرتی مسائل جنم لیتے ہیں۔ جن کا تدارک کرنا ہوگا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایجوکیشن سپیشلٹ پلوشہ جلالزئی نے کہا کہ بلوچستان میں جو بچے سکولوں سے باہر ہے وہ غربت کے باعث کم عمری میں مختلف ادارو اور شعبہ ہائے زندگی میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ وہاں پر ان کو ذہنی و جسمانی تشدد سے تحفظ فراہم کرنے کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غربت کہ وجہ سے والدین اپنے بچوں کی نگہداشت سے قاصر رہتے ہیں۔ کیوں کہ ان کو محنت مزدوری سے فرصت نہیں ملتی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یونیسیف کی نمائندہ فیڈریکا نے کہا کہ حکومت پاکستان نے 1990ء میں تحفظ اطفال معاہدہ پر اقوام متحدہ کے ساتھ دستخظ کئے اور بلودچستان واحد صوبہ ہے جس نے 2016ء میںتحفظ اطفال بل منظور کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بل پر مکمل طور پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں عوامی نمائندے اور متعلقہ ادارے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 35 معاشرے کے ہر فرد کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ سیمینار سے ڈائریکٹر جنرل سماجی بہبود مسرت جبیں، او پی ایم نمائندہ سارہ گورننس ایڈوائزر فصیح مہتا اور دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا ۔