کوئٹہ: دین محمد وطن پال سے
صحافتی تنظیموں کے رہنمائوں نے کہا ہے کہ سی پیک کے بعد بلوچستان میں فری لانس جرنلزم کے زیادہ مواقع میسر ہوںگے۔ جدید دنیا کی جدیدہ ٹیکنالوجی کے ڈیجیٹل نظام نے پوری دنیا کو ایک دوسرے سے منسلک کردیا ہے۔ سوشل میڈیا ایک انقلاب ہے اور اگر اسی طرح تیزی سے ترقی کرتا رہا تو مستقبل میں اخبارات کے فرنٹ ورژن اور الیکٹرانک میڈیا کا تصور بھی ختم ہوجائے گا۔ پاکستان پریس فائونڈیشن کے زیرا ہتمام بلوچستان کے مختلف اضلاع کے صحافیوں کے لیے منعقدہ تین روزہ ورکشاپ سے کوئٹہ پریس کلب کے جنرل سیکرٹری عبدالخالق رند، بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر خلیل احمد، پاکستان پریس فائونڈیشن کی نسیم شیخ اور در شہوار نے خطاب کیا۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے واقعے کے بعد فری لانس جرنلزم کا رواج شروع ہوا۔ فری لانس صحافت کا دائرہ ہمارے خطے میں اتنا وسیع نہیں ہے۔ کیوں کہ ہمارے اخبارات میں معاشی مسائل زیادہ ہے۔ جس کی وجہ سے ریگولر کام کرنیوالے ملازمین کے تنخواہوں کے بھی بے شمار مسائل ہے۔ جس کے باعث بلوچستان میں فری لانس جرنلزم پر کام نہیں ہورہا ۔ چھوٹے اخبارات معاشی سطح پر کمزور ہے جس کی وجہ سے وہ فری لانس صحافیوں کا معاوضہ برداشت نہیں کرسکتے جبکہ بڑی اخبارت میں اب تک یہ ٹرینڈ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پہلی بار روزنامہ آساپ نے کالم نگاروں اور فیچر رپورٹروں کو معاوضہ دینا شروع کیا۔ اس وقت میڈیا میں بھی کراچی، اسلام آباد اورلاہور کی نسبت بلوچستان بہت پسماندگی کا شکار ہے۔ فری لانس جرنلزم کے فروغ میں سب سے اہم کردار اخبار مالکان کی ہے انہیں بھی اس میں شامل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا گلوبل ویلیج میں تبدیل ہوچکی ہے۔ دنیا بہت تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ہے۔ جس تیزی سے سوشل میڈیا نے انقلاب بھرپا کیا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دو یا تین دہائیوں کے بعد فرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا تصور ختم ہوسکتا ہے ۔ بڑے شہروں میں اکثر صحافیوں نے اخبارات کو خیر باد کہہ دیا ہے اب فری لانس کے طور پر کام کررہے ہیں۔ اخبارات ویب سائٹوں میں تبدیل ہورہے ہیں۔ دنیا کے بڑے جریدے انٹرنیٹ پر دستیات ہونے کے بعد فرنٹ ورژن بند کررہے ہیں۔ سی پیک کے بعد بلوچستان میں فری لانسرز کو زیادہ مواقع میسر ہوں گے۔ ہمیں ابھی سے مستقبل کے چیلنجز کیلئے تیاری کرنی ہوگی۔ جابندار صحافت کا مستقبل نہیں ہے۔ غیر جابنداری سے صحافت کرنا ایک خدمت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے اخبارات میں روز مرہ خبروں کی اشاعت کے علاوہ خصوصی موضوعات پر انوسٹی گیٹیو صحافت کو اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔ لوگوں کی توجہ بھی روزمرہ کی موضات پر مرکوذ ہوتی ہے۔ ابھی تک فری لانس صحافیوںکو صحافتی تنظیموں اور پریس کلبوں میں رکنیت نہیں دی جارہی ہے۔ نئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا صحافتی تنظیموں، پریس کلبز اور ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ فری لانس صحافیوں سے متعلق صحافتی تنظیموں اور پریس کلبوں کے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں صحافت کے شعبے سے منسلک سینئر صحافی اور ماہرین ہماری مدد کریں۔