کوئٹہ:
نگران صوبائی وزیر اطلاعات خرم شہزاد اور سیکرٹری بہبود و نسواں صدیق مندوخیل نے کہا ہے کہ ہر معاشرے میں ریڈیو کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ جہاں پر الیکٹرانک میڈیا کی سہولت نہ ہو وہاں پر ریڈیو سننا جاتا ہے۔ اس میڈیم کو مزید بہتر بنایا جائے۔ تاکہ لوگوں میں شعور و آگاہی کا ذریعہ بن سکے۔ اس کے ذریعے معاشرتی اور خصوصا خواتین کے مسائل پر اجاگر کرنے کا اقدام قابل تحسین ہے۔ یو این وومن اور یو این والنٹیئرز کی جانب سے کمیونٹی فوکس ریڈیو منصوبے کے تحت ایک روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں حکومتی اداروں کے نمائندوں کے علاوہ کمیونٹی فوکس ریڈیو منصوبے کے رضاکاروں سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کیں۔
ورکشاپ سے خطاب میں نگران صوبائی وزیر اطلاعات خرم شہزادنے کہا: ہر معاشرے میں ریڈیو کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔ جہاں پر لوگوں کو ٹیلی ویژن کی سہولیات میسر نہیں ہے وہاں پر ریڈیو سننا جاتا ہے۔ لوگوں کو اپنے کیلئے آگے آنا چاہیے اور اسے رپورٹ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس منصوبے کے ذریعے لوگوں میں انتخابات سے متعلق شعور بیدار کرنے کیلئے کام کریں کہ لوگ زیادہ سے زیادہ اپنی حق رائے دہی کا استعمال کریں۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارے اداروں میں انفراسٹرکچر زبوحالی کا شکار ہے جس کا نوٹس لیا گیا ہے۔ ریڈیو کی اہمیت ہر معاشرے میں ہے۔ گاڑی میں دوران سفر بھی ریڈیو سنا جاتا ہے۔
سیکرٹری برائے بہبود و نسواں صدیق مندوخیل نے ورکشاپ سے خطاب می کہا :جدید میڈیا کے باجود ریڈیو کا میڈیم دور دراز کے علاقوں میں سنا جاتا ہے۔ اس میڈیم کو مزید بہتر بنایا جائے۔ تاکہ لوگوں میں شعور و آگاہی کا ذریعہ بن سکے۔ ریڈیو وہ واحد میڈیم ہے جس کے سامعین زیادہ ہے اور ہر وقت سننا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے معاشرتی اور خصوصا خواتین کے مسائل پر اجاگر کرنے کا اقدام قابل تحسین ہے۔ اس سلسلے میں یو این وومن اور یو این والنٹیئرز کا کردار قابل تحسین ہے۔ انفارمیشن کا دور ہے۔ دیہاتوں میں اب بھی سنا جاتا ہے۔ ریڈیو کے ذریعے گراس روٹ لیول پر لوگوں کے مسائل اجاگر کئے جاسکتے ہیں۔لوگوں میں رضاکاریت کا رجحان دوبارہ بڑھ رہا ہے۔
یو این وومن کی ریحانہ خلجی اور پروجیکٹ کوارڈی نیٹر طلعت جہاں نے شرکاء کو منصوبے کی تفصیلات اور مقاصد بتاتے ہوئے کہا:منصوبے کا بنیادی مقصد نوجوانوں کے مہارتوں میں مزید اضافہ اور پروان چڑھانا ہے۔ ہزارہ اور خیزئی چوک کے بعد سریاب اور نواں کلی کے رضاکاروں پر مشتمل گروپ تشکیل دے رہے ہیں۔ جنہیں ریڈیو پروگرام کے علاوہ لوگوں سے رابطہ رکھنے اور کمیونیکیشن سے متعلق تربیت دی جائے گی۔ میڈیا کے دوسرے میڈیم کے مقابلے میں ریڈیو تک لوگوں کی پہنچ زیاد ہ اور زیادہ تعداد میں لوگ سنتے ہیں۔ ریڈیو کے ذریعے لوگوں کے مسائل اجاگر کرنے میں مدد ملے گی۔ منصوبے سے خطے میں رضاکاریت کو فروغ ملے گی۔ لوگوں میں رضاکاریت کے رجحان میں اضافہ ہوگا۔ جبکہ مختلف علاقوں کے لوگوں کو ان کے مسائل اجاگر کرنے میں مدد ملے گی۔ اس منصوبے کو جاری رکھنے کیلئے ریڈیو پاکستان کوئٹہ اسٹیشن میں قاباعدہ جگہ مخصوص کی گئی ہے۔ جہاں پر ضروری آلات بھی مہیا کی گئی۔ تاکہ اس کو بعد میں جاری رکھا جاسکے۔ جبکہ رضاکاروں کو ریڈیو پاکستان کے سینئر سٹاف کی مدد سے تربیت دی جارہی ہے۔ تاکہ مستقبل میں وہ خود اس قابل ہو کہ وہ رپورٹنگ سے لیکر ایڈیٹنگ اور اسے براڈکاسٹ کرنے کے قابل ہوسکے۔ مستقبل کیلئے خضدار، سبی، گوادر، پشین، ژوب اور لورالائی میں ان منصوبوں کے آغاز کا تجویز دیا گیا ہے۔ تاکہ کوئٹہ سے باہر دوسرے اضلاع کے مسائل پر اجاگر کیا جاسکے۔
ریڈیو پاکستان کے اسٹیشن منیجر سہیل خٹک نے ورکشاپ کے شرکاء سے کہا:اب 60رضاکاروں کی تربیت مکمل ہوچکی ہے۔ جن کے 13پروگرام آن ائیرکئے جاچکے ہیں جبکہ 6پروگرام ایڈیٹنگ کے مراحل میں ہے۔ ریکارڈ کئے گئے پروگرام شام کے اوقات میں نشر کئے جاتے ہیں۔ عوامی مسائل کو اجاگر کرنے میں ریڈیو پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہے۔ کمیوٹی کی سطح پر براڈکاسٹ سے عوامی مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی اور اسے حکام بالا تک باآسانی پہنچائے جاسکتے ہیں۔ ترقی پزیر ممالک میں کمیونٹی براڈکاسٹ وہ تک وہ جگہ نہیں بنا سکا جو ترقی یافتہ ممالک میں ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ان رضاکاروں کو پروڈیوسر کی سطح کی تربیت دی جائے تاکہ وہ اپنے تمام تر کام خود نمٹا سکے۔
ورکشاپ سے ممتاز سماجی کارکن ثریا اللہ دین، روبینہ سعید شاہوانی اور دیگر سول سوسائٹی کے نمائندوں نے بھی خطاب کیا اور تجاویز دی کہ ریڈیو کے عام رپورٹنگ کے علاوہرضاکاروں کو ایڈوانس ٹریننگز دیئے جائیں۔ کمیوٹنی فوکس ریڈیو میںعوامی مسائل پر مبنی پروگرام پیش کئے جارہے ہیں۔ کوشش ہے کہ اسے مزید پھیلایا جائے۔ بلوچستان میں موجود فرسودہ روایات پر مبنی پروگرام بھی نشر کئے جائیں تاکہ لوگوں میں شعور و آگاہی پیدا کیا جاسکے۔
رپورٹ و تصاویر: دین محمدو طن پال