کوئٹہ:
کوئٹہ کے سرکاری ہسپتالوں میں جان بچانے والی ادویات کا دستیاب نہ ہونا انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں موجود دونوں بڑے ہسپتالوں (بی ایم سی ہسپتال اور سول ہسپتال)میں وینٹی لیٹر تک موجود نہیں ہے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کیلئے پینے کا صاف پانی ، جبکہ مریضوں کیلئے انتظار گاہ کی سہولت بھی موجود نہیں ہے۔ ڈاکٹر ادویات میں 80فیصد تک کمیشن لیتے ہیں۔ جنہوں نے سرکاری ہسپتالوں کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیاہے۔ مریضوں کو لے جانیوالے ایمبولینسز میں بنیادی ابتدائی طبی امداد اور آکسیجن کی سہولت تک موجود نہیں ہے۔ ڈاکٹر وارڈ میں ڈیوٹی دیتے ہیں نہ ہی اُو پی ٹی میں پورا وقت دیتے ہیں۔
سٹیزن کارڈ رپورٹ کے تحت سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشیٹو اور سالار فائونڈیشن نے کوئٹہ میں صحت کے سہولیات سے متعلق منعقدہ سروے میں شہریوں نے بلوچستان بلخصوص کوئٹہ میں صحت کی سہولیات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ سرورے رپورٹ سے متعلق مقامی ہوٹل ایک روزہ نشست کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کے ڈپٹی ایم ایس کے علاوہ، لوکل گورنمنٹ کے نمائندے میر اسلم رند، انسانی حقوق کے نمائندے، مختلف سماجی اداروں اور میڈیا کے نمائندوںنے شرکت کیں۔ نشست کے دوران سٹیزن رپورٹ کارڈکے تحت کئے گئے سروے میں پر بحث کیا گیا اور سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات کے فقدان کو شدید تنقید کا نشانہ بناگیا۔
سروے کے نتائج کے مطابق: شہری ضلعی ہسپتالوں میں دستیاب صحت کی سہولیات سے مکمل طور پر مطمئن نہیں ہیں۔ سرورے کے %53 شرکاء نے ہسپتال تک پہنچنا آسان ، %40نے ڈاکٹر سے وقت لینا کچھ حد تک مشکل جبکہ %10 کیلئے صرف مشکل قرار دیا۔ %39شرکاءہسپتال کی انتظار گاہ پر اور %88 شرکاءہسپتال میں مریضوں اور انکے ساتھ آنے والوں کیلئے پینے کا صاف پانی کی عدم دستیابی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ سروے کے %45شرکاء کوبہت کم بھروسہ ہے کہ ڈاکٹر ان کے مفاد میں بہترین طبی فیصلے کرتا ہے تاہم %30نے کسی حد تک بھروسے کا اظہارکیا۔%52 کے مطابق آپریشن کی تاریخ لینا کچھ حد تک مشکل تھا اور %21نے آپریشن کی تاریخ لینے کیلئے رشوت بھی دی۔ %45 آپریشن تھیٹر کی صفائی سےغیر مطمئن تھے- اسکے ساتھ ساتھ %72شرکاء کے مطابق انکوبازار سے ادویات خریدنے کو کہا گیا-
ہسپتال میں صفائی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں سروے کے%33شرکاء بستر کی چادروں کی صفائی سےغیر مطمئن جبکہ %29نے اطمینان کا اظہار کیا۔%47 شہری وارڈ کی صفائی اور% 41 وارڈ کے بیت الخلاء کی صفائی سےبہت غیر مطمئن تھے۔ % 57 شرکاء نے بتایا کہ ڈاکٹر نےانھیں لیبارٹری سے خون /پیشاب کا ٹیسٹ اور %43کوایکسرے تجویز کیا،جن میں سے %54جواب دہندگان نے مجوزہ ٹیسٹ پرائیویٹ لیبارٹری سے کروائے۔ جبکہ %61شرکاءکے مطابق انہیں ڈاکٹر نے کسی مخصوص لیبارٹری سے ٹیسٹ کروانے اصرار کیا۔ %84جواب دہندگان نے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال سے ٹیسٹ کروانے کی فیس ادا کی ہے۔
سروے سے متعلق منعقدہ نشست کے دوران شرکاء کا کہنا تھا:شہر میں 1000سے 1200تک ایمبولینس موجود ہیں لیکن کسی میں بھی بنیادی ابتدائی طبی امداداور آکسیجن کی سہولت نہیں ہے۔ جس کے باعث کسی واقعے یا حادثے کے زخمیوں کو بچانا مشکل ہوجاتاہے۔ بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کا سالانہ بجٹ29کروڑ ہے جس میں ایک مریض کا اندازاً 11 روپے بجٹ ہے۔ جس میں ٹیسٹ، ایکسرے اور او پی ڈی کے علاوہ ہسپتال میں داخل مریضوں کیلئے ادویات دینا بھی شامل ہیں۔ جسے پورا کرنا مشکل کام ہے۔ نجی ہسپتالوں میں انستیزیا ڈاکٹروں کے بجائے ٹیکنیشن کرتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں انتظار گاہیں نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مستونگ واقعے میں بی ایم سی ہسپتال نے سول ہسپتال کو مریضوں کے علاج کیلئے لون دیا۔ ایک اور ٹراما سینٹر بی ایم سی میں بنایا جارہا ہے۔ جس کا کسی کو بھی فائدہ نہیں پہنچ سکے گا۔ کیوں سہولیات کے فقدان کے باعث ہسپتال اپنے خرچے پورے نہیں کر پارہے تو ٹراما سینٹر کا چلانا بہت مشکل کام ہے۔
رپورٹ: دین محمد وطن پال
اس سروے کا انعقاد اسلام آباد کی ایک تحقیقاتی تنظیم سی پی ڈی آئی نے یورپی یونین کی مالی معاونت اور فریڈرک نومان فاؤنڈیشن فا ر فریڈم کے تعاون سے چلنے والے منصوبے ” پاکستان میں ترقی کیلئے جمہوری مقامی حکومتیں "کے تحت کیا