کوئٹہ:
بلوچستان میں ماں کے دودھ کے بجائے دیگر متبادل غذا کے استعمال سے 52فیصد کم اور 16فیصد کو شدید غذائی کمی کے شکار بچوں میں سے 50فیصد بچے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ نیوٹریشن پروگرام کے قائم علاج معالجہ کے67 1مراکز میں 12ہزار 3سو 28چھ ماہ سے لیکر پانچ سال کی عمر تک کے بچوں میں سے 5,372 بچوں کا کامیاب علاج کیا جاچکا ہے۔ بلوچستان نوٹریشن سیل نے لیڈی ہیلتھ ورکرز، پی پی ایچ آئی اور سماجی تنظیموں کے اہلکاروں کی مدد سے 99ہزار 3سو 29بچوں میں غذائی کمزوری کی جانچ کی ہے، جن کے علاج و معالجہ کے لیے صوبہ بھر میں 167مراکز قائم کئے ہیں۔ 7اضلاع خاران، نوشکی، سبی، کوہلو، قلعہ سیف اللہ، ژوب اور پنجگور میں محکمہ صحت کے 1,436اہلکاروں اور 110 سماجی تنظیموں کے اسٹاف کو نیوٹریشن کے حوالے سے تربیت دی جاچکی ہے۔
بلوچستان نوٹریشن سیل کے ڈاکٹر ناصر علی بگٹی کا کہنا ہے: غذائیت کی کمی ہمیشہ سے بلوچستان میں صحت کا بڑا مسلہ رہی ہے، قومی غذائی سروے 2011کے نتائج کے مطابق پاکستان میں غذائیت کی کمی کی شرح بہت زیادہ ہے۔غذائی کمی بچوںپر براہ راست یا بالواسطہ اثر انداز ہوتی ہے جس کی بدولت آدھے سے زیادہ بچے موت کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہ شرح اموات پاکستان میں نہایت ذیادہ ہے۔ بلوچستان میں بچوں کی غذائی کمی سے متعلق کسی قسم کی تازہ ترین معلومات میسر نہیں ہے ۔ دستیاب معلومات(ڈیٹا)2011ء میں کئی قومی غذائیت کے سروے سے حاصل کی گئی ۔ اس سلسلے میں بلوچستان نوٹریشن سیل کے سروے 2017ء پر کام ہورہا ہے جس کے نتائج بہت جلد جاری کئے جائیں گے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے عالمی ادارہ صحت نے 1981ء میں صحت اسمبلی میں ایک بل پاس کیا جس میں ماں کے دودھ کے متبادل غذا پر پابندی لگادی گئی اس بل کو تمام رکن ممالک نے تسلیم کیا۔ پاکستان میں 20سال کے بعد 2002میں قومی اسمبلی اس بل کو پاس کیا گیا جبکہ اس کے بعد 2009ء میں 7سال کے جدوجہد کے بعد اسے قانونی شکل دیدیا گیا ۔ 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صحت کا محکمے کا اختیار صوبے کو دیا گیا۔ بلوچستان اسمبلی نے غذائیت کے تحفظ و فوغ کا بل پاس کیا ہے جسے غذائیت کے تحفظ و فروغ کا ایکٹ 2013 کہا جاسکتا ہے۔ جس کا مقصد خواتین میں بچوں کی نشوونما میں غذاء کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے اور ماں کے دودھ کے متعلق آگاہ کیا جائے کہ ماں کا دودھ ان کے بچے کے لیے بہترین غذا ے اور اسہال اور دیگر امراض کی روک تھام میں مدد کرتا ہے، اس چیز کا بھی خیال رکھا جائے گا کہ بچوں کی غذائیت کے لیے تیار کی گئی تمام مصنوعات معیار کے مطابق ہوں گے۔ قانون کی خلاف ورزی پر دو سال قید اور پچاس ہزار سے پانچ لاکھ روپے جرمانہ تک کی سزائیں دی جا سکیں گی۔اس نئے قانون کے تحت سندھ میں ڈبّے کا دودھ تیار کرنے والا کوئی بھی ادارہ اسے ماں کے دودھ کا متبادل، اس کے برابر یا اس سے بہتر قرار دے کر، اپنی پراڈکٹ کی تشہیر نہیں کرسکے گا۔
اس وقت ہمیں دیگر درجنوں، سینکڑوں اور یا پھر لا تعداد بیماریوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے بہتر نشونما اور صحت کے حوالے سے بچوں کی غذائیت اور خصوصاً بچوں کو ماں کے دودھ کے بجائے مارکیٹ کا دودھ پلانا ایک اہم اور توجہ طلب مسئلہ ہے ۔ ہمارے معاشرے میں ہر گھر میں ہر دوسری عورت اپنی بچوں کو مارکیٹ کے کھلے یا خشک دودھ پلاتی ہیں ۔
ڈاکٹر عمران خان کے مطابق: ماں کا دودھ پینے والے بچے نفسیاتی و جسمانی طور پر تندرست و طاقتور اور ذہنی طور پر چاق و چوبند ہوتے ہیں۔ ماں کے دودھ میں کچھ ایسے اجزا شامل ہوتے ہیں جوبچے کی ذہنی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ماں کا دودھ پینے والے بچے زیادہ ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ بیماریوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ ماں کے دودھ میں کثیر سیر شدہ شحمی تیزابیت (پولی ان سیچوریٹڈ) زیادہ مقدار میں ہوتے ہیں جو بچے کے دماغ کی نشوونما کیلئے بہت ضروری اور مفید ہوتے ہیں۔ ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں خون کی کمی، رکٹس یعنی ہڈیوں کا نرم پڑنا اور وٹامنز کی کمی کی شکایات نہیں ہوتیں۔
رپورٹ: کوئٹہ انڈکس/ دین محمد وطن پال