کوئٹہ:
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ بلوچستان مالداری کے حوالے سے بھی ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے جہاں ملک کی 48 فیصد بھیڑیں، 42فیصد اونٹ اور 30فیصد بکریاں پائی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود ناقص پالیسیوں اور عدم توجہی کے باعث یہ شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے، اس شعبہ کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرکے کثیر زرمبادلہ کمایا جاسکتاہے،بلوچستان کا مستقبل تین شعبوں مائننگ، ماہی گیری اور لائیواسٹاک کی ترقی سے وابستہ ہے ہم نے ان شعبوں کی ترقی پر توجہ مرکوز کررکھی ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو عالمی یوم تحفظ حیوانات کے حوالے سے محکمہ لائیو اسٹاک کے زیراہتمام منعقدہ ایک روزہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
مشیر لائیو اسٹاک مٹھا خان کاکٹر،قائم مقام اسپیکر صوبائی اسمبلی سردار بابر خان موسیٰ خیل،، اراکین صوبائی اسمبلی محمد خان لہڑی ، مبین خان خلجی ،سیکریٹری لائیواسٹاک اکبر حریفال، اور ڈی جی لائیواسٹاک ڈاکٹر غلام حسین بھی اس موقع پر موجود تھے۔ وزیراعلیٰ جام کمال خان نے کہا کہ ہم بھی اپنے مالداروں کو جدید سہولتوں کی فراہمی اور گوشت کی پراسیسنگ اور پیکنگ کی فیکٹریاں قائم کرکے جنوبی پنجاب کی طرز پر گلف اور مڈل ایسٹ کو تازہ گوشت برآمد کرسکتے ہیں جس سے عام مالدار کی معاشی حالت بہتر ہوگی اور صوبے کی معیشت بھی مضبوط ہوگی، وزیراعلیٰ نے کہا کہ بدقسمتی سے ملک اور صوبے کی سطح پر لائیو اسٹاک کی اہمیت کو اجاگر نہیں کیا گیا کیونکہ اس شعبہ سے غریب لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اس کے برعکس زمینداروں کا اثرورسوخ سیاست اور پالیسی سازی میں ہے، وہ بڑے رقبوں کے مالک ہیں لیکن مالداری نہیں کرتے لہٰذا ملکی سطح پر زمینداروں اور صنعت کاروں کے فائدہ کی پالیسیاں بنائی گئی ، وزیراعلیٰ نے کہا کہ پاکستان خطے میں لائیواسٹاک کی پیداوار کا سب سے بڑا ملک ہے لیکن عالمی مارکیٹ میں پاکستان کا ایک فیصد حصہ بھی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پانی کی کمی کی وجہ سے صوبے میں زراعت محدود ہوتی جارہی ہے اور اگر پانی کے استعمال کی کوئی بہتر منصوبہ بندی نہ کی گئی تو پانی کی کمی کا مسئلہ مزید شدت اختیار کرسکتا ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر پانی کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تو صوبے کے زمینداروں کو مالداری کی جانب بھی آنا ہوگا اور اپنی اراضی اور دستیاب پانی کو زمینداری اور مالداری دونوں کے لئے استعمال میں لانا ہوگاتاکہ ان کا اور ان پر انحصار کرنے والے کاشتکاروں اور مزدوروں کا ذریعہ معاش قائم رہے۔ انہوں نے کہا کہ مالداری کے شعبہ کی ترقی کے لئے حکومت اور متعلقہ بین الاقوامی اور ملکی اداروں کو بھی آگے آنا ہوگا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس سیکٹر میں صوبائی حکومت کی جانب سے سرمایہ کاری نہیں کی گئی ، دو دو ارب روپے کی عمارتیں تو کھڑی کردی گئیں جو غیرآباد ہیں پی ایس ڈی پی کے فنڈز کا ضیاع کیا گیا، اگر ان میں سے کچھ فنڈز لائیواسٹاک کے شعبہ پر خرچ کئے جاتے تواس کے مثبت نتائج سامنے آتے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت تمام بے روزگاروں کو روزگار فراہم نہیں کرسکتی ہمیں زراعت اور لائیواسٹاک کو ہر صورت اوپر لانا ہوگا جو روزگار کی فراہمی کا بہت بڑا ذریعہ ہیں، انہوں نے کہا کہ سی پیک آرہا ہے، سڑکیں بن رہی ہیں، ہم حیوانات کے ہسپتال اور انہیں بیماریوں سے بچاؤ کی ویکسین دینے کے مراکز قائم کریں گے اور جلد صوبے کے مالداروں کی رہنمائی اور ان سے مشاورت کے لئے ایک روزہ ورکشاپ منعقد کیا جائے گا جس میں ماہرین حیوانات بھی شریک ہوں گے، تقریب سے مشیر لائیواسٹاک مٹھاخان کاکٹرنے بھی خطاب کیا جبکہ ڈی جی لائیواسٹاک ڈاکٹر غلام حسین نے سپاسنامہ پیش کیا۔ قبل ازیں وزیراعلیٰ نے وولن ہینڈی کرافٹ کے اسٹال کا معائنہ کیا اور وہاں رکھی گئی مصنوعات میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔
رپورٹ: کوئٹہ انڈکس؍ نمائندہ خصوصی