اسلام آباد:
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کے چیئرمین سینیٹر سردار محمد یعقوب خان ناصرنے کہا ہیکہ ایشین گیمز اور ایشیاء کپ میں پاکستان کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ہے ٹیلنٹ کی کمی نہیں کھلاڑیوں کی فٹنس اور کارکردگی کو بہتر کرنے کیلئے اقدامات اٹھانے چاہیں پاکستان سپورٹس بورڈ اس حوالے سے بہتری کیلئے موثر پالیسی تیار کر کے تاکہ کھیلوں کے فروغ سے پاکستان کا نام روشن کیا جا سکے،بلوچستان سے فٹ بال کے اچھے کھلاڑی سامنے آرہے ہیں مگر وہاں کوئی اچھا اسٹیڈیم نہیں ہے ان خیالات کا اظار سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کے چیئرمین کمیٹی سینیٹر سردار محمد یعقوب خان ناصرنے قائمہ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ھوئے کیا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان سپورٹس بورڈ ، پاکستان کرکٹ بورڈ اور نیشنل انٹرن شپ پروگرام کے کام کے طریقہ کار ، کارکردگی ، بجٹ اور درپیش مسائل کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ قائمہ کمیٹی کو سیکرٹری بین الصوبائی رابطہ نے بتایا کہ پاکستان سپورٹس بورڈ 1962 میں وزارت ایجوکیشن کے ساتھ کارپوریٹ ادارے کے طور پر قائم کیا گیا۔ جون2011 میں کھیلوں کے شعبے کا انتظامی کنڑول بین الصوبائی رابطہ کو منتقل کر دیا گیا۔ اس کا ایک بورڈ جس کے فرائض میں قومی ٹیموں کے تمام سطحوں پر تعلیم وتربیت اور حوصلہ افزائی کو فروغ دینا ، قومی کھیلوں کی تنظیموں اور کھلاڑیوں کی مدد کرنا، پاکستان اولمپک ایسوی ایشن کے مشورے سے کھیلوں کی تنظیموں کے الحاق پر غور کرنا وغیرہ شامل ہے۔ بورڈ کے سربراہ وزیراعظم ہیں اور اس کے37 ممبران ہیں۔ایگزیکٹو کمیٹی کے 16 ممبران ہیں۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاکستان سپورٹس بورڈ کے کل منظور شدہ اسامیوں کی تعداد661 ہے جس میں سے 150 خالی ہیں۔پاکستان سپورٹس بورڈ 19 کھیلوں کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ کمیٹی کو کوچنگ سینٹر کراچی ، لاہور، پشاور ، کوئٹہ میں فراہم کردہ سہولیات بارے بھی آگاہ کیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ مالی سال2017-18 میں997 ملین غیر ترقیاتی بجٹ تھا اور موجودہ سال 1 ارب کا غیر ترقیاتی بجٹ ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ نیشنل سپورٹس فیڈریشن غیر سرکاری تنظیمیں ہیں۔کھیل کو کنڑول اور فروغ دینے کے ذمہ دار ہیں۔ نیشنل سپورٹس فیڈریشن کو منسلک اور کام کے طریقہ کار بارے بھی آگاہ کیا گیا۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاکستان سپورٹس بورڈ کے ساتھ 39 نیشنل سپورٹس فیڈریشن کام کر رہی ہیں۔ رکن کمیٹی سردار اعظم خان موسیٰ خیل نے کہا کہ چمن میں اسٹیڈیم بنانے کیلئے سابق وزیر پارلیمانی امور نے سینیٹ اجلاس میںیقین دہانی کرائی تھی مگر ابھی تک کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ سینیٹر مشاہداللہ خان نے کہا کہ صوبہ بلوچستان سے فٹ بال کے اچھے کھلاڑی سامنے آرہے ہیں مگر وہاں کوئی اچھا اسٹیڈیم نہیں ہے۔ جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ ناروال اسٹیڈیم 2009 کی سکیم میں شامل تھا 2015 میں فنڈنگ ہوئی جبکہ چمن اسٹیڈیم کیلئے پی ایس ڈی پی میں اس سال فنڈ مختص نہیں کیے گئے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر سردار یعقوب خان ناصر نے کہا کہ ایشین گیمز اور ایشیاء کپ میں پاکستان کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ہے۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ کھلاڑیوں کی فٹنس اور کارکردگی کو بہتر کرنے کیلئے اقدامات اٹھانے چاہیں۔
انہوں نے ہدایت کی کہ پاکستان سپورٹس بورڈ اس حوالے سے بہتری کیلئے موثر پالیسی تیار کر کے تاکہ کھیلوں کے فروغ سے پاکستان کا نام روشن کیا جا سکے۔ قائمہ کمیٹی پاکستان کرکٹ بورڈ کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ 1962 کے آرڈنینس کے تحت قائم ہوا۔1995 میں پاکستان سپورٹس بورڈ کر دیا گیا یہ کارپوریٹ اور نیم خود مختار ادارہ ہے۔وزیراعظم پاکستان کرکٹ بورڈ کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔ ادارے کا ایک گورننگ بورڈ ہے جس کا ایک چیئرمین ہے جس کو گورننگ باڈی منتخب کرتی ہے۔پاکستان کے 101 اضلاع کو 16 ریجنز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ادارے کی آمدن انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ، باہمی کرکٹ سیریز کیلئے میڈیا رائٹس کی فروخت پر 11 جائیدادیں / اسٹیڈیم کرایوں کی آمدن شامل ہے۔ اس کی7 مختلف کمیٹیاں ہیں جن میں سینئر سیلیکشن کمیٹی ، جونیئر سیلیکشن کمیٹی اور وویمن سیلیکشن کمیٹی وغیرہ شامل ہیں۔پاکستان سپورٹس بورڈ کے کل938 ملازمین ہیں۔ ملک میں 41 کرکٹ گراؤنڈ بنائے گئے۔سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ کچھ کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھا کھیل پیش کر رہے ہیں انہیں قومی ٹیم شامل کیوں نہیں کیا جاتا۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ یاسر شاہ کو ون ڈے کرکٹ میں شامل کیا جائے۔ سینیٹر سردار اعظم خان موسیٰ خیل نے کہاکہ پاکستان سپورٹس بورڈ کا دفتر لاہور میں ہے اس کو وفاق میں ہونا چاہیے جس میں تمام اکائیاں شامل ہوں اور ڑوب کو ریجن کا درجہ کیوں نہیں دیا گیا۔ قائمہ کمیٹی کو نیشنل انٹر شپ پروگرام بارے بھی تفصیلی آگاہ کیا گیا۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ مالی سال میں2006-07 میں یہ پروگرام شروع کیا گیا 18 ویں ترمیم کے بعد اسٹیبلشمنٹ کو منتقل کر دیا گیا۔
2011-12 میں اس پروگرام کا صوبائی حصہ ختم کر دیا گیا اور دائرہ کار صرف وفاقی علاقہ جات تک محدود کردیا گیا۔ 2013 میں بین الصوبائی رابطہ کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔ ادارے میں کل 60 اسامیاں ہیں جس میں سے22 خالی ہیں۔پروگرام کا مقصد تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کو ایک سالہ انٹرن شپ دلوانا تاکہ ان کی پیشہ وارانہ مہارت کو بڑھایاجائے۔ سرکاری و نجی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے اور صنعتوں کے ساتھ جوڑ کر روزگار کے زیادہ مواقع پیدا کیے جائیں۔ ہر سال 50 ہزار انٹرنز کو تربیت کیلئے منتخب کیا جاتا ہے۔انٹرنز کو ماہانہ15 ہزار تنخواہ دی جاتی ہے انتخاب کا معیار کم از کم 16 سالہ تعلیم یا میٹرک کے بعد تین سالہ ڈپلومہ ہے۔ عمر کی بالائی حد 25 سال جبکہ بلوچستان ، فاٹا ، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے بچوں کے لئے عمر کی بالائی حد سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی کی سفارش پر 30 سال کر دی گئی ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پہلے مرحلے میں50 ہزار میں سے47589 بچوں نے انٹرن شپ حاصل کیا۔جبکہ دوسرے مرحلے میں50 ہزار میں سے 33458 نوجوانوں نے انٹرن شپ مکمل کی۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ نوجوانوں کی پیشہ وارانہ تربیت کیلئے اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے۔ترقیاتی منصوبے کی بدولت فنڈ کے سہ ماہی اجراء میں تاخیر کی وجہ سے انٹرنز کے ماہانہ تنخواہ کی ادائیگی میں رکاوٹ آ جاتی ہے۔نیشنل انٹرن شپ کے ملازمین کی تقرری و ترقی کے قوانین کی عدم موجودگی ان کی صلاحیتوں کے بہتر استعمال میں رکاوٹ بنتی ہے۔ اس پروگرام کے تحت پبلک پرائیوٹ شراکت داری کے وسیع مواقع موجود ہیں اور اس سکیم کے تحت نہ صرف سرکاری و نجی ادارے اپنی کارکردگی کو بہتر کر سکتے ہیں بلکہ پڑھے لکھے نوجوانوں کی بہتر رہنمائی سے ملک کا قیمتی اثاثہ بنا جا سکتا ہے۔ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز مشاہد اللہ خان ، فیصل جاوید ، سردار محمد اعظم خان موسیٰ خیل اور عابدہ محمد عظیم کے علاوہ سیکرٹری بین الصوبائی رابطہ ، پاکستان سپورٹس بورڈ ،پاکستان کرکٹ بورڈ اور نیشنل انٹرن شپ پروگرام کے حکام نے شرکت کی.
ؒخبر: کوئٹہ انڈکس/ نمائندہ خصوصی