کوئٹہ:
یو این وومن اور ائٹس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ فائونڈیشن کے نمائندوں نے کہا ہے: مردوں کےمقابلے میں خواتین میں نشہ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ خواتین کا علاج و معالجہ میں بھی مشکلات کا سامنا ہے جس کے باعث و علاج قاصر رہتی ہیں۔ جبکہ دماغی توازن بڑھانے کیلئے ٹافیوں کی شکل میں یونیورسٹیوں اور کالجوں کے بعد اب سکولوں میں منشیات بیچی جارہی ہے۔ خواتین پر تشدد کے خاتمے کے 16 روزہ مہم کے سلسلے میں رائٹس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ فائونڈیشن کے زیر اہتمام یو این وومن کے تعائون سے مسیحی ہسپتال کوئٹہ کےنرسز سکول میں ایک روزہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔
سیمینار سے رائٹس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ فائونڈیشن کی ہما فولادی اور ذوالفقار جبکہ یو این وومن کی طلحہ بلوچ نے خطاب کیا۔ اس موقع پر انہوں نے بتایا کہ دماغی توازن کو تیز کرنے سے منسوب کئی جگہوں پر منشیات سے منسلک ایسی ٹافیاںبیچی جاتی ہے جو طلباء اور طالبات میں نیند کم کردیتی ہے۔ جس کے خطرناک نتائج برآمد کئے جاتے ہیں۔ ایک درجن کے قریب منشیات سے منسلک چیزوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کے مسلسل استعمال سے لوگ عادی ہوجاتے ہیں۔
مقررین نے سیمینار کے شرکاء کو بتایا: نشہ کے عادی افراد میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کا گراف بڑھ رہا ہے۔ نشہ کے عادی خواتین دوسری معاشرتی بے را رویوں میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں کیوں کہ انہوں نے اپنے نشے کا خرچہ پورا کرنا ہوتاہے۔ قبائلی رسومات کے باعث خواتین کو علاج و معالجہ کے مراکز میں داخل نہیں کرایا جاتا۔ ہمارے ہاں اکثر خاندانوں میں اگر مرد اور عورتیں دونوں نشہ کے عادی بن جاتے ہیں تو صرف مردوں کا علاج کرایا جاتا ہے۔ آر آر ڈبلیو ایف نشہ کے عادی خواتین کے علاج و معالجہ پر کام کرنیوالی صوبے کا پہلا تنظیم ہے۔ جو کومک کے نام بروری روڈ پر سرگرم عمل ہے۔ شیشے کے نشے کے ایک دن کا خرچہ ایک ہزار روپے تک ہے۔ نشہ کے عادی افراد میں اضافے کے باعث سٹریٹ کرائم بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص نشہ سے چھٹکارا حاصل کرتا ہے لیکن معاشرتی رویوں کے باعث انہیں ایسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اسے واپس اپنے پرانے حالات پر لے جاتے ہیں۔
یو این وومن کی طلحہ بلوچ سیمینار سے خطاب میں مزید بتایا : یو این وومن کی جانب سے ہیر می ٹو کے نام سے سوشل میڈیا پر ایک مہم چلائی جارہی ہے جس میں وہ خواتین شرکت کرتی ہے جنہیں جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہو۔ یہ 16 روزہ مہم ہر سال خواتین پر تشدد اور جنسی ہراسگی کے خاتمے کیلئے چلائی جاتی ہے۔ تاکہ وہ خواتین پر جنسی ہراسگی کے واقعات کا روک تھام کیا جاسکے۔ پاکستان میں بھی کئی معروف شخصیات جنہیں کسی نہ کسی موقع پر جنسی طور پر ہراساں کئے گئے تھے سوشل میڈیا پر ہیرٹو می مہم کا حصہ رہے ہیں۔
‘خبر و تصاویر: کوئٹہ انڈکس/ دین محمد وطن پال