Sunday, June 29, 2025
No menu items!

پاک افغان سرحد کے محل وقوع اور ملکی معیشت میں اسکا کردار

اس ہفتے کی اہم خبریں

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی پٹی ایک تناظر میں لمبائی 24 سو کلومیٹر کم وبیش شمار کیاجاتاہے جس میں سب سے اہم اور تجارتی لحاظ دو مقام پر گیٹ وے ہیں جہاں پر تجارتی سرگرمیاں سال بارہ مہنے رہتی ہیں ۔اگر دیکھاجائے ان دو مقامات میں تجارتی تناسب سے سب سے اہم مقام چمن پاک افغان بارڈر ہیں جہاں پر روزانہ کی بنیاد پر بارہ سوسے زائد مال بردار ٹرک دونوں جانب سے آتے جاتے ہیں جس میں ایک تہائی حصہ پاکستان سے افغانستان میں داخل ہوتے ہیں جو مختلف قسم کے مال بردار ٹرک ہیں اور تقریبا ایک حصہ یا اس سے کم حصہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور نیٹو سپلائی کا ہیں جبکہ زیادہ حصہ مال بردار ٹرکوں کا ہوتا ہے جو مختلف اشیاء خوردونوش اور دیگر ہرطرح کے مال سے لوڈ ہوتے ہیں۔

 

پائپ،ماچس،ٹریکٹر،ہرقسم کی پرچون کا سامان پاکستان افغانستان کوبھیجا جاتاہے جبکہ خوردنی اشیاء میں آلو،چاول،آٹا،مختلف اقسام کی دالیں اور مصالحہ جات،پیاز،ٹماٹر اور دیگر سبزی جات جبکہ فروٹ میں پاکستان سے افغانستان کیلئے آم،کینو،کیلا زیادہ مقدار میں بھیجا جاتاہے اور یہ سب چیزیں باقاعدہ کسٹم میں ٹیکس کرکے بھیجاجاتاہے وہ الگ بات ہیں کہ ان اشیاء پر کس قسم کا ٹیکس جمع کیاجاتاہے اور کتنا کرپشن کی نذر ہوتا ہیں یہ پاکستانی اداروں کی ذمہ داری ہے جبکہ افغانستان سے پاکستان کیلئے کسٹم کے ذریعے ڈرائی فروٹ،خاشخاش،زیرہ،لونگ اوردیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ فروٹ میں تربوز،خربوز،انار،انگور سیزن میں پاکستان ہی ان کا سب سے بڑی منڈی ہوتی ہیں جبکہ دیگر اشیاء جس میں گاڑیوں کی سپیئر پارٹس،نان کسٹم پیڈ گاڑیاں اور دیگر غیرملکی الیکٹرونکس سامان اور کپڑا، بوٹ، چپل، کاسمیٹکس سامان،کراکری، چائے، سگریٹ، بیڑی کے سامان ہوتے ہیں جس میں اسی فیصد بغیر ٹیکس اور بیس فیصد یا اس سے بھی کم ٹیکس کے ذریعے پاکستان میں داخل کئے جاتے ہیں۔

 

جبکہ چمن پاک افغان سرحد پورے خطے میں وہ واحد سرحد ہیں جہا ں پر ایک ہمسایہ ملک میں داخل ہونے کیلئے بغیر پاسپورٹ ویزہ آپ داخل ہوسکتے ہیں اور اس سرحد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہیں کہ یہاں پر سب سے زیادہ پیدل آمدروفت ہوتاہے جو تقریبا بیس ہزار تک پہنچ جاتاہے اور پورے دن صبح آٹھ بجے سے لیکر شام چھ بجے تک پورے آزادی کے ساتھ آپ جاسکتے ہیں اور آسکتے ہیں جبکہ آمدروفت کے اوقات ختم ہونے کے بعد آپ کسی بھی وقت دیگر آس پاس کے چیک پوسٹوں پر چند رقم کے عوض واپس آسکتے ہیں اور جابھی سکتے ہیں یہ ہیں پاک افغان سرحد چمن کے مقام پر محل وقوع اب آتے ہیں پاک افغان سرحد کی بندش سب سے زیادہ کون متاثر ہوتا ہے

کوئٹہ، پاک افغان سرحدی پٹی پر ایف سی اہلکار خندق کھودنے میں مصروف ہے۔ واضح رہے کہ یہ فیصلہ پاکستان نے دہشتگردی کے واقعات کے روک تھام کے لیے کیا تھا

ایک اندازے کے مطابق افغانستان کیلئے ایمپورٹ اور ایکسپورٹ سے پاکستان کو روزانہ صرف سترہ لاکھ روپے کا فائدہ ہوتا ہیں جس میں کم وپیش بھی ہوسکتاہے اور اگر فی دن کے حساب سے پچاس لاکھ روپے ٹیکس بھی جمع کیاجائے تو بھی پاکستان کو ماہانہ پندرہ کروڑ روپے ٹیکس کے مد میں ملے گا جبکہ سرحد پر تعینات کسٹم آفیسران،ایف آئی اے آفیسران،لیویز فورس کے تنخواہ اوردیگر اخراجات کے بھی نہیں اٹھاسکتے ضلع قلعہ عبداللہ میں دو ہزار سے زائد ٹیچر بچوں کو پڑھاتے ہیں جس میں ایک ٹیچر کی کم سے کم تنخواہ بھی 27 ہزار سے زائد ہیں اسی طرح ملکی خزانے میں جو ٹیکس جمع ہورہاہے وہ صرف انتظامیہ اور ایجوکیشن کے ملازمین کی بھی پوری نہیں ہوتی جبکہ افغانستان میں جانے والے چمن شہر کے تاجر اور جو روزگار کیلئے جاتے ہیں وہ بھی پہلے افغانستان میں پاکستانی کرنسی سے کام کرتے تھے جس سے پاکستانی بینکوں میں کچھ ٹیکس بھی جمع ہوتاتھا اور اس سے بڑے پیمانے پر پاکستانی کرنسی کااستعمال ہوتاتھا جو افغانستان کے حکومت نے کسی کے اشارے پر پچھلے دس مہنوں سے پاکستانی کرنسی پر سخت پابندی لگائی ہیں اور اگر کسی کے پاس سے پاکستانی کرنسی برآمدہوئی تو اس کو دس ہزار روپے افغانی یعنی افغانستان کے کرنسی میں جرمانہ اداکرنا ہوگا اور اس کیلئے باقاعدہ ان کے خفیہ ادارے خاد کے ملازمین اور ایجنٹوں کو باقاعدہ ویش منڈی میں پھیلایا ہے جو کسی پاکستانی تاجر کے ساتھ پاکستانی کرنسی میں کاروبار کرنے کی کوشش کرتے تھے اگر کوئی پاکستانی تاجر انکار کرتاتھا تو اس کو شاباش دیتے اور اگر کوئی کاروبار کرتاتھا تو اس کو فوری طورپر جیل میں بند کرکے اس کے کاروبار کو سیل کرجاتے تھے اور فوری طور پر اس سے بھاری جرمانہ وصول کرجاتے تھے جس سے کئی پاکستانی تاجروں کو افغانستان سے بے دخل کیاجاتاجبکہ اگر کوئی پاکستانی مال بردار ٹرک مال لے کر افغانستان لے جاتے اگر ٹرک پر پاکستانی جھنڈے کا کوئی چمک پٹی ہوتی تو اس کے شیشے کو توڑ کر پاکستان کے خلاف سخت نازیبا الفاظ استعما ل کرتے تھے اور ڈرائیور کو زد وکوب کرتے تھے جس سے ڈرائیور بھی افغانستان سے نالا ہوتا اور اگر روزہ ان کا پہلے ہوتا تو اپنے روزے کے دن پاکستانی تاجروں کے ہاتھ میں کوئی کھانے پینے کی چیز ہوتی تو اس کو بھی سخت برملا کے ساتھ ساتھ اس کو زد وکوب کرتے تھے اسی طرح تاجروں اور چمن کے عوام کے ساتھ بھی ان کارویہ سخت نازیبا ہوتا تھا جبکہ اب پاکستانی تاجروں کا سارا دارومدار افغانستان سے ہیں اور چمن کے کئی ہزار بے روزگار نوجوانوں کی وسیلہ کاروبار بھی افغانستان ویش منڈیاں ہے جہاں سے وہ اپنے بچوں کی پیٹ پالنے کیلئے روزانہ کی بنیاد پر محنت مزدوری کرتے تھے مگر آج تک پاکستانی نوجوانوں اورتاجروں کو ان کا اصل مقام نہیں ملاہے۔

 

آج پاک چائناسی پیک منصوبہ چل رہاہے وہ بھی اپنے خاص مرحلے میں ہیں جس میں چمن میں بھی کئی منصوبے شروع کئے جائینگے جس میں ماڈل کسٹم ہیں اور ایک بین الاقوامی ریلوے اسٹیشن ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایک کارگو سینٹر ہیں جو پورے ملک میں تین مقامات پر بن رہے ہیں ایک چمن،گوادر اور واہگہ بارڈر پر بننے کا اعلان کیاگیا ہے جہاں پر بیک وقت سینکڑوں ٹرک کھڑے ہونگے جہاں پر گودام اور دیگر سہولیات ہونگی جبکہ ابھی پاک افغان سرحد صرف دس مہنے میں تین دفعہ بند ہوچکاہے جو تقربیا پینسٹھ دن بند رہاہے جس سے مقامی تاجر شدید متاثر ہورہے ہیں جو خط غربت کی لکیر سے نیچھے زندگی گزارنے والے متاثر ہورہے ہیں وہ سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں ایک اندازے کے مطابق ضلع قلعہ عبداللہ میں کوئی بھی روزگار کا وسیلہ نہیں ہے ماسوائے پاک افغان ویش منڈیاں جہاں پر وہ اپنی روزگارکررہے تھے اور اب وہ ہزاروں نوجوان بے روزگار ہوگئے ہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہے تھاکہ حکومتی سطح پر مقامی تاجروں کو جو دجاپان،چائنا، دبئی،سنگاپور،ہانگ کانگ،اور دیگر مختلف ممالک سے مختلف اشیاء افغانستان کے راستے لارہے تھے جو اپنے کنٹینر ز بندرعباس کے راستے ویش منڈی لاکر کھول دیتے ہیں اور اس میں زیادہ تر چیزیں افغانستان کے مختلف شہروں میں فروخت کیلئے لے جائی جاتی ہے اور یہ تاجر اپنا ٹیکس ایران اور افغانستان کے خزانوں میں جمع کراتے ہیں اگر یہ ٹیکس پاکستانی خزانے میں جمع کیاجائے تو پاکستانی خزانے میں ماہانہ اربوں روپے کا ٹیکس جمع ہوگا جس سے ملکی معیشت کو بھی تقویت ملے گ۔

چمن، پاک افغان سرحد پر لوگوں کی بڑی تعداد میں سرحد پار کرکے افغانستان سے پاکستان میں داخل ہورہے ہیں

اگر مقامی تاجروں کو پاکستانی بندرگاہیں ارزاں ٹیکس پر استعمال کرنے کی اجازت دی جائے اور ان کے یہ کنٹینرز چمن میں لاکر چمن ہی میں منڈیاں ویش منڈیوں کے طرز پر بنائی جائے تو پاکستانی علاقے چمن سے ہی افغانستان اورایران کیلئے بھی وہاں کے تاجر سامان لیکر جائینگے جس سے پاکستان کو مزید ٹیکس ملے گا اور چمن میں کنٹینرز کھلنے کے بعد ہی ملک کے دیگر شہروں میں لے جانے کیلئے باقاعدہ ٹیکس جمع کیاجائے تو ملکی خزانے کو اس سے بھی ایک اچھا خاصا ٹیکس ملے گا مگر پاک افغان سرحد کو تجارتی سرگرمیوں کیلئے اور دیگر ہرطرح کی آمدروفت کیلئے بند کرنے سے کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا اس سے عوام میں مزید مایوسی بڑھے گی جو خطرناک ہے جبکہ افغان فورسز کی جانب سے جارحیت کا موثر جواب دینا پاکستانی فورسز کا ایک اچھا اور موثر طریقہ تھا اور ہمیشہ ہی سے پاکستانی قبائلی عوام کا اپنے فوج اور سیکورٹی فورسز پر فخر رہاہے اور ہر مشکل گھڑی میں ان کے شانہ بشانہ دشمن کے خلاف لڑنے سے بھی دریغ نہیں کیاہے جس کا واضح ثبوت سویت یونین کے خلاف مقامی قبائل نے باقاعدہ فوج سے ٹریننگ لیکر اپنی تیاری کا اظہار کیاہے جس کا اب بھی مقامی افراد کے پاس باقاعدہ سند بھی ہیں اور کئی نوجوانوں نے باقاعدہ فوج میں ملازمین بھی اختیار کرلی ہیں جس میں اب کئی ریٹائرمنٹ کی زندگی گزاررہے ہیں

 

اب جبکہ مقامی نوجوانوں ایک بڑی تعداد میں بے روزگار ہوگئے ہیں جن پر ہر طرف روزگار کے مواقع بند ہوگئے ہیں اور جو بے راہ روی کی طرف بڑھ رہے ہیں جو ایک خطرنا ک عمل ہیں اور اس سے معاشرے میں مختلف قسم کے جرائم پیشہ سرگرمیاں شروع ہونے کا اندیشہ ہیں اگر اس ناز ک دور میں پاکستان حکومت کی جانب سے ایک اچھے فیصلے کا وقت ہیں اور وہ کیاکریں گے ان کے روزگار کیلئے اب جبکہ چمن کے تاجروں کا سارا دار ومدار افغانستان کے ویش منڈی سے ہیں اور ان کا سارا کاروبار اب بھی ویش منڈی میں اگر ان تاجروں کو ایک وقت دیاجائے کہ اسوقت تک سرحدکو کھولا جائے گا اس وقت تک تمام تاجر اپنا کاروبار پاکستانی علاقوں میں شفٹ کرے اور ان کیلئے پاکستانی سرپرستی میں جو پاکستانی علاقے میں ریلوے اور آرمی کی اراضیاں ہیں جو بالکل کمرشل ایریامیں ہے ان پر ان کیلئے منڈیاں قائم کی جائے اور ان کے قبضے واہ کئے جائیں اوران زمینوں کو قبضے سے چھڑاکر ان پر ویش منڈیاں کی طرز پر منڈیاں بنائی جائے اور ا س کو باقاعدہ لیز پر عوام کو فراہم کیاجائے تو پھر یہ ہزاروں کی تعداد میں جو ایک اندازے کے مطابق پندرہ ہزار سے زائد ہیں وہ یہاں پر کام کرکے ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا حیثیت پیداکرسکتے ہیں اور ملکی معیشت کو سہار ا بھی دے سکتے ہیں اب جبکہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں صرف اپنی پارٹیوں تک محدود ہیں ان سے یہ کام نہیں ہوسکتے یہ کام خیر صرف فورسز کی سربراہی میں ہی ہوسکتے ہیں اور اس کیلئے سیکورٹی فورسز کو ہی آگے آنا ہوگا اور وہ ہی سرحدو ں کی حفاظت جس طرح کررہے ہیں اسی طرح نوجوانوں کے لئے وسیلہ روزگار کا بھی اسی طرح اقدامات اٹھائینگے۔

 

تحریر : جعفرخان اچکزئی جرنلسٹ۔

- Advertisement -spot_img

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisement -spot_img
تازہ ترین

Find Trustworthy Online Gambling Establishment Ireland Sites With Our Help

Top 10 Casino Gambling Web Sites For Real Cash Within The Usa 2025ContentWhat Are The Best Online Casinos For...
- Advertisement -spot_img

مزید خبریں

- Advertisement -spot_img
error: آپ اس تحریر کو کاپی نہیں کرسکتے اگر آپ کو اس تحریر کی ضرورت ہے تو ہم سے رابطہ کریں