ویسے توت جو شمالی چین کا ایک مقامی درخت تھا۔ وہاں سے ہجرت کرکے دنیا میں پھیل گیا اور وہی درخت کسی دور میں بلوچستان بھی آگیا اور چھا گیا۔
ارے گوگل میاں ؟
میں آپ کو توت کے بارے میں اہم معلومات دے سکتا ہو کیسے ؟ چلئے میرے ساتھ ۔
بلوچستان میں توت کی کاشت تاریخی حوالے سے بہت پرانی اور کئی سو برس پرانی ہے اب تو توت مقامی درخت؛ پھل کا بھی درجہ مل ہوگیا ہے ۔
جبکہ برصغیر کی دیگر مقامی زبانوں میں، توت، توتہ، شہ توت بھی کہا جاتا ہے ۔ بلوچستان کی سر زمیں پہ توت کے لاکھوں درخت موجود ہیں ۔ توت کی لکڑی کا رنگ ہلکا زرد، چمکدار زرد، وزن میں ہلکی ، لچکدار اورمظبوط ہوتی ہے۔
توت کی چھڑیا ں بہت لچکدار اور مظبوط ہوتی ہیں اور ٹوکریاں بنانے والوں کی اولین پسند بھی ہیں اس کی ٹوکریاں مرغیوں کے بچو کو بند کرنے کے کام آتی ہیں اور ساتھ میں ان ٹوکریوں سے پھل ایک جگہ سے دوسری جگہ لانے اور لے جانے کا اہم کام بھی سر انجام دیتا ہیں۔
جب پہلی مرتبہ انگریزوں نے بلوچستان میں قدم رکھا تو وہ بہت خوش تھے ان کو دنیا کا صحت افزا مقام بلوچستان مل گیا۔ چند سال بعد انہوں نے جب حالات اپنے کنٹرول میں کر لیئے تو انہوں نے اپنی بیگمات کو کوئٹہ بلا لیا تاکہ ساتھ ساتھ زندگی گزار سکیں۔
حتاکہ انکی بیگمات کو بھی بلوچستان بہت خوبصورت لگی تو وہ لوگ تانگوں پہ سوار ہو کر بلوچستان کے مختلف بازاروں کی طرف چل پڑی تو تانگوں کے سامنے یہی توت جو کسی ٹائم میں چین سے لائے گئے تھے دیوار چین بن گئے ۔حتاکہ کچھ سال پہلے انہی انگریزوں نے اپنے لئے بطور چھائوں کے لئے توت کے درخت سڑکوں کے کناروں پہ لگوائیں تھے۔ جب یہ درخت بڑے ہوگئے تو شہتوت سڑکوں پہ گرنے لگے تو انگریزی حکام کے تانگے پھسلنے لگے تھے تو سڑک کے کنارے کے تمام شہتوت کے درخت کاٹ دیئے گے تاکہ گھوڑے نہ پھسل سکیں ۔حتاکہ ان انگریزوں کے کئی گھوڑوں کی ٹانگیں بھی ٹوٹ گئی تھی ۔
بلوچستان میں پائے جانے والے شہتوت لال،ہرے ،سفید اور کالے رنگ کے بھی ہوتے ہیں۔ سیاہ رنگ کے شہتوت کی ایک قسم بے دانہ سب سے اعلیٰ تسلیم کیا جاتا ہے، اسکا رس ہمیشہ ٹپکتا رہتا ہے اور یہ شیریں بھی ہوتا ہے۔ اس کے کھانے سے طبیعت میں سکون ملتا ہے۔ اوراس شہتوت پھل سے بے چینی ،گھبراہٹ چڑچڑاپن اور غصہ بھی دور ہوتا ہے اور خون صاف بھی ہوتا ہے۔ حتاکہ اسکے کھانے سے جگر اور تلی بھی صاف ہو جاتا ہے۔

توت کے پتے اپنی ساخت اور سائز میں نہ صرف ایک درخت بلکہ ایک شاخ پر بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتے ہیں ۔ دو سے پانچ انچ کے یہ انوکھے پتے انسانی ہتھیلی سے مشابہ رکھتے ہیں مگر اسکے پتے پانچ کی جگہ تین انگلیوں والا پان کی شکل کا ہوتا ہے اور پھر کٹے پھٹے، کنارے آری کے دندانوں والے ، اوپر سے گہرے سبز اور ہموار اور نیچے سے قدرے کھردرے اور سفید بھی، پتوں کی رگیں نچلی طرف نمایاں ہوتی ہیں۔
میرے دادا اکثر کہتے تھے توت گرمی کی پیاس کی شدت کو ختم کرتا ہے اور اس کا شربت بخار میں فائدہ دیتا ہےاور جسم کی حرارت کو بھی کم کرتا ہے بڑی کھانسی خاص طور پر خشک کھانسی میں اور گلے کی دکھن میں بے حد مفید ہے۔ سر درد کے لیے اکیس تازہ شہتوت لیکر چینی کی پلیٹ میں لیکر رات بھر کھلے آسمان کے نیچے رکھیں اور صبح نہار منہ کھا لیں اس سے پہلے ہی دن آرام آ جاتا ہے۔
بلوچستان کے اکثر لوگ شہتوت کھاتے ہی نہیں کیونکہ اس کی پیداوار بلوچستان میں حد سے بھی زیادہ ہے جبکہ بعض ڈاکٹر کہتے ہیں کہ شہتوت انسانی جسم میں خون سب سے زیادہ پیدا کرتا ہے ۔اور اسکے کھانے سے جگر کی بھی اصلاح ہوتی ہے ۔ شہتوت ہضم غذائیت سے مالا مال ہوتا ہے۔قدرت نے شہتوت پھل کو وٹامن اے ، بی اور ڈی سے بھی کثیر مقدار میں نوازہ ہے ۔بہ قول مقامی ڈاکٹروں کی شہتوت ایک قبض کشا بھی پھل ہے۔ اس سے ہاضمے کو تقویت ملتی ہے۔جگر کو افادیت پہنچا کر صالح خون کو پیدا کرتا ہے۔
توت کے اس وقت بلوچستان میں چالیس ذیلی خاندان اور لگ بھگ ایک ہزار اقسام کے درخت مختلف علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ اپنے ذائقے اور بے پناہ طبی خصوصیات کی بنا پر انتہائی مقبول توت کے پھل ایک انچ سے کچھ ہی بڑا ہوتا ہے جو دراصل بہت سے ننھے ننھے رسدانوں کا مجموعہ ہوتا ہےجو دھاگے کی سی باریک ایک ننھی شاخ پر ایک ساتھ جڑکر اس کی شکل بناتے ہیں۔
شہتوت انتہائی میٹھا ہے۔ اس کی ایک قسم کو توت کی بجائے شہتوت یا شاہ توت بھی کہتے ہےوہ انتہائی نازک ہے جو ہاتھ پہ رکھنے سے پانی پانی ہو جاتا ہے اس کا ذائقہ انتہائی لذیذ ہوتا ہے اور اس کا رنگ کپڑوں پہ لگنے سے اترتا ہی نہیں بلا شک آپ دنیا کے تمام کیمیکل استعمال کریں مگر رنگ اترنے والا ہی نہیں ہے ۔
بلوچستان کے موسم بہار میں صرف ایک ماہ کیلئے آنے والے توت سیاحوں کو حیران کر دیتے ہیں ۔ اور سیاح جب ان تو تو کو اکٹھے کر تے ہیں تو مقامی لوگ ان کو دیکھ کر حیران ہوتے ہیں ۔یہ کس کام کے ہے اور تو اور مقامی لوگ توت سے ایلرجی بھی کھاتے ہیں حتاکہ کئی گھروں سے اس کے درخت کاٹے بھی گئی ہے۔
اگر بلوچستان کوئی شخص گھومنے آئے تو شہتوت نہ کھائیں تو سمجھو کچھ بھی نہیں کھایا حتاکہ توت کی ایک قسم خشک بھی کی جاتی ہے جو سالوسال استعمال کی جاتی ہے اگر آپ کبھی بلوچستان آئیں تو توت ضرور اپنے لئے لیتے جائے مگر یاد رہے ان کو پہلے اچھی طرح پانی میں دھو کے کر کھائیں کیونکہ ان توتو کو اکٹھے کر تے وقت زمین کی مٹی انکے اندر چلی جاتی ہے اور توت کھاتے وقت احتیاطی تدابیر پر عمل ضرور کریں ورنہ زیادہ کھانے کی صورت میں ڈاکٹر کے پاس جانا پڑھتا ہے ۔
تحریر: ببرک کارمل جمالی