کوئٹہ؛
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی سابق ممبر صوبائی اسمبلی محترمہ عارفہ صدیق نے کہا ھے کہ چمن کے لاکھوں عوام کا پاک افغان سرحدی تجارت کے علاوہ کوئی اور ذریعہ معاش نہیں ہیں۔دو مہینوں سے چمن کے تمام طبقات کے لوگ پاک افغان بارڈر کو تجارت اور آمدورفت کے لئے بند کرنے پر احتجاج کر رہے ہیں اور دو مہینے سے پرامن دھرنے اور احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں جس میں ہزاروں افراد روزانہ کی بنیاد پر 24 گھنٹے ہزاروں افراد احتجاج میں شامل رہتے ہیں مگر صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے چمن کے لوگوں کو نان شبینہ کا محتاج بنا دیا ہے ۔
اپنے ایک بیان میں سابق رکن صوبائی اسمبلی عارفہ صدیق کا کہنا تھا؛ چمن کے لاکھوں عوام کا باڈر تجارت کے علاوہ کوئی اور ذریعہ معاش نہیں ہیں اسلام آباد میں بار بار مذاکرات ہوئے مگر ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے چند دن پہلے دھرنے کو ایف سی قلعہ کے سامنے لے گئے جس پر ذمہ داران کی باڈر گیٹ کھولنے کی یقین دہانی پر دھرنے کو واپس پرانی جگہ پر منتقل کیا گیا مگر اس یقین دہانی پر پر حکام نے کوئی عمل درآمد نہیں کیا جس پر آج پھر ہزاروں افراد کے دھرنے کو ایف سی قلعہ کے سامنے منتقل کیا گیا لیکن اس بار ایف سی حکام نے دھرنے کمیٹی کو مذاکرات کی دعوت دی تو دوسری طرف ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کو خوف و ہراس پھیلانے کے لئے دھرنے کی سامنے لا کھڑا کیا جس کی ہم بھرپور انداز میں مذمت کرتے ہیں
سابق رکن بیان میں مزید کہا؛ حکام کو بتانا چاہتے ہیں کہ ذبردستی اور ظلم کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ مسئلے کا واحد حل باڈر کو بند کرنے سے پہلے کی طرز پر تجارت اور آمد و رفت کے لئے کھولنے میں ھے اور حکام کو جلد یا بدیر اس پر عمل کرنا ھوگا اس لئے دیر کرنے کی بجائے فوری طور پر باڈر کو تجارت اور آمد و رفت کے لئے بغیر کسی شرط کے بند کرنے سے پہلے کی طرز پر کھول دیا جائے۔