کوئٹہ/پشاور/کراچی:
سی پی ڈی آئی نے پاکستان میں بجٹ شفافیت کی صورتحال سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ جاری کردی ۔ رپورٹ میں وفاقی اور صوبائی سطح پر بجٹ سازی کے عمل میں کوتاہیوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ پاکستان میں بجٹ مختلف شراکت داروں (سٹیک ہولڈرز)کے ساتھ مشاورت سے تیار کیا جانا چاہئے اور بجٹ سازی اور بجٹ پر عمل درآمد کے تمام مراحل کے دوران شہریوں کیساتھ معلومات کا از خودتبادلہ کیا جانا چاہئے۔ یہ بات سی پی ڈی آئی کے صوبائی کوآرڈینیٹر محمد آصف نے گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس کے دوران بتائی جس کا اہتمام مقامی تنظیم کی جانب سے سیٹیزن نیٹ ورک فار بجٹ اکاونٹیبلٹی کےتحت کیا گیا تھا ۔ سی این بی اے پاکستان کے 110 اضلاع میں بجٹ کی شفافیت پر کام کرنے والی 70ے زیادہ سول سوسائٹی تنظیموں کا ایک نیٹ ورک ہے۔
میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے نے کہا کہ سی پی ڈی آئی ہمیشہ بجٹ سازی کے عمل میں شفافیت کیلئے کوشاں رہی ہے۔گذشتہ ایک دہائی سے سی پی ڈی آئی، پاکستان کے مختلف اضلاع میں بجٹ سازی کے عمل میں شفافیت کا جائزہ لے رہی ہے لیکن رواں سال وفاقی اورصوبائی سطح پر اس عمل کا جائزہ لیا گیا ہے ۔یہ رپورٹ نہ صرف پاکستان میں بجٹ شفافیت کی صورتحال کا جائزہ لے گی بلکہ اس سےیہ اندازہ لگانے میں بھی مدد ملے گی کہ پاکستان میں معلومات تک رسائی کا حق، بجٹ سے متعلق معلومات کے حصول میں کس حد تک موئثر ہے۔
رپورٹ کے نتائج کی وضاحت کرتے ہوئے نے بتایا کہ یہ رپورٹ دو حصوں پر مشتمل ہے ۔ پہلا حصہ مختلف وفاقی وزارتوں اور صوبائی محکموں کو معلومات کے حصول کے لئے ارسال کردہ درخواستوں سے متعلق ہے جن میں بجٹ سازی کے عمل کے دوران مختلف مراحل کے بارے میں معلومات طلب کی گئیں ۔اس سلسلہ میں بجٹ سازی کے عمل میں شفافیت کو جانچنے کیلئے منتخب وفاقی وزارتوں اور صوبائی محکموں کو معلومات کے حصول کی 150 درخواستیں بھجوائی گئیں۔ وفاق کو ارسال کردہ 36 درخواستوں میں سے 6 کے جوابات موصول ہوئےاورچاروں صوبوں کے مختلف محکموں کو ارسال کردہ 114 درخواستوں میں سے خیبرپختونخوا ہ سے صرف 2 اور پنجاب سے 4 جوابات موصول ہوئے جبکہ بلوچستان اور سندھ میں معلومات کی کسی بھی درخواست پر کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ دوسرے حصے میں بجٹ دستاویزات کی جامعیت اور بجٹ سازی میں شہریوں کی شرکت کا جائزہ لیا گیا ہے۔یہاں وفاقی حکومت کل 181 پوائنٹس میں سے 71 پوائنٹس کے ساتھ سرفہرست ہے پنجاب دوسرے، بلوچستان تیسرے جبکہ سندھ اور خیبر پختونخواہ نے آخری دوپوزیشنز حاصل کیں۔انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ برسوں کے دوران "اوپن بجٹ انڈکس” پر پاکستان کی افسوس ناک کارکردگی نے بجٹ سازی کے عمل میں شفافیت اور شہریوں کی شمولیت سے متعلق صورتحال پر کئی سوالات کو جنم دیا ہے ۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ، ،سالار فاونڈیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سلام خان نے کہا کہ رپورٹ میں بجٹ شفافیت پر جو سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ سب توجہ طلب ہیں اور حکومت کو اس سلسلہ میں فوری اقدامات کرنے چاہییں، حکومت کی جانب سے معلومات کی فراہمی کے معاملے پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے اور بجٹ تجاویز کو وسیع پیمانے پر شہری گروپوں، سرکاری اداروں اور اہم شراکت داروں کیساتھ زیربحث لایا جائے۔ بجٹ سازی کے عمل میں شہریوں کی شمولیت کو قانونی تحفظ ملنا چاہئے اور سرکاری اداروں کے لئے لازم ہونا چاہئے کہ وہ بجٹ سازی کے مختلف مراحل کے دوران شہریوں سے مشاورت کریں۔ انہوں نے بجٹ سازی اور عمل درآمد کے مراحل کے دوران پارلیمنٹیرینز کے کردار میں اضافے کا بھی مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ مالی سال کے آغاز سے کم از کم تین ماہ قبل اسمبلیوں میں پیش کیا جانا چاہئےاورمتعلقہ سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد زیادہ سے زیادہ معلومات کی فراہمی پر مبنی ایک شفاف اور اوپن بجٹ پالیسی وضع کی جانی چاہیے۔
Post Views: 893