کوئٹہ؛
سول سوسائٹی کے نمائندوں کا کہنا ہے؛ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد بلوچستان اسمبلی سے خواتین کی تحفظ کے حوالے سے 4قوانین پاس کرائے گئے ہیں۔ جبکہ سندھ حکومت کی بلوچستان اور دیگر صوبوں کی نسبت قانون سازی کا عمل سب سے بہتر اور ہے۔ آج کے اس جدید دور میں بھی طلبہ یونین اور سیاست پابندیوں کا شکار ہے۔ خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہونا تشویشناک عمل ہے۔ کورونا کے دوران لاک ڈاون میں سب سے زیادہ گھروں میں کام کرنیوالی خواتین (ہوم بیسڈ ورکرز)متاثر ہوئی ہیں۔ قانون سازی سے زیادہ قانون پر عملدرآمد کا ہونا لازمی ہے۔ جس سے قوانین مزید موثر ثابت ہوتی ہیں۔
عورت فانڈیشن کے تحت جذبہ پروجیکٹ کے ڈسٹرکٹ فورم سے کمیشن برائے انسانی حقوق کے نائب چیئرمین حبیب طاہر ایڈووکیٹ، جذبہ پروگرام آفیسر عورت فانڈیشن یاسمین مغل، پولیس سرجن ڈاکٹر عائشہ فیض، سیاسی و سماجی کارکن شاہدہ ارشاد، عورت فانڈیشن کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر علاوالدین خلجی،زرغونہ ایڈووکیٹ ودیگر نے خطاب کیا۔ فورم میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کیں۔ اس دوران شرکاء کو بتایا گیا کہکرونا کے باعث محنت کش عورت جہاں معاشی طور پر سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے وہاں اسے گھریلو تشدد کا زیادہ سامنا کرنا پڑا۔ بچیوں کی کم عمری اور جبری شادی کے رجحانات سے بچیوں کی صحت پر خطرنات اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
فورم کے شرکاء کا کہنا تھاکہ میڈیا، ٹریڈ قدغن کا شکار ہے آئین کے تحت اظہار رائے کی آزادی، تجارت کی آزادی کا حق حاصل ہوتا ہے طلبا سیاست کا اہم رول تھا لیکن 21 ویں صدی میں طلبا سیاست پابندی کا شکار ہیں، سیاست ہر شخص کا بنیادی حق ہے لیکن آج ملک میں سیاست قدغن کا شکار ہے۔ آئین میں انسانی بنیادوں پر برابری کی سطح پر حقوق دئیے گئے ہیں۔شعور کا فقدان ہے قوانین بنتے ہیں لیکن عمل داری نہ ہونے کے برابر ہے بلوچستان میں 18 ویں ترمیم کے بعد خواتین سے متعلق 4 قوانین بنائے گئے ہیں۔
شرکاء کو بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ جذبہ پروجیکٹ کوئٹہ، سبی، کیچ اور گوادر میں جاری ہے جس کا مقصد سیاسی عمل میں خواتین کی شمولیت اور ان پر ہونے والے تشدد سے متعلق لوگوں میں آگاہی اور خواتین کوبااختیار بناناہے،انہوں نے کہاکہ کورونا کی وجہ سے جذبہ پروگرام کی سرگرمیاں محدود ہوئی تاہم عورت فاؤنڈیشن نے جذبہ پروجیکٹ کے تحت کورونا سے متاثرہ خواتین میں راشن تقسیم کیا بلکہ رواں سال 2020 میں دنیا بھر کی طرح عورتوں پر ہونے والے تشدد اور جبر کے خلاف اپنی آواز بلند کیلئے 16روزہ مہم جو دنیا میں عورتوں پر تشدد اور جبر کے خلاف جدوجہد کی علامت کے طور پر منائے جاتے ہیں 10 دسمبر تک جاری رہے گا۔
اس سلسلے میں لوگوں میں شعور وآگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے،بلوچستان میں خواتین کی حالت زار بہتر بنانے کی ضرورت ہے اس سلسلے میں انہیں سیاسی عمل میں شمولیت کے ساتھ ساتھ سیاسی سطح پر مستحکم کیا جائے اور زندگی کے تمام شعبوں میں نمائندگی دی جائے۔خواتین کے حقوق کی سب سے بڑی گارنٹی انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے۔ عورت کو واقعی طور پر اس کا مقام دینا مقصود ہو تو انہیں سیاسی، تعلیمی، انتظامی اور مالی طور پر مستحکم کرنا ہوگا۔ ہم نے آج تک عورت کو انسان ہی نہیں سمجھا۔ ان کو طرح طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ موجودہ صورتحال کرونا کے باعث خواتین پر گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔