کوئٹہ
کرونا کے وباء کے پھیلنے کے بعد لاک ڈاون کی صورتحال سے جہاں پوری دنیا میں کاروباری مراکز بند ہوگئے اور عام لوگوں میں بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی تو وہاں گھروں میں کام کرنیوالی خواتین (ہوم بیسڈ ورکرز) بھی مالی مشکلات سے دوچار ہوگئیں۔ ان ورکروں کا کاروبار یا جوکہ لوکل اور آن لائن مارکیٹوں سے وابستہ تھا کو شدید نقصان پہنچا اور شدید مالی مشکلات سے دوچار ہوگئیں۔ جبکہ کرونا کے اس لہر کے دوران گھریلوں تشددکے واقعات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا جس کی وجہ سے بھی یہ ورکرز ذہنی اذیت کا شکار ہوگئیں۔
عورت فاونڈیشن کے ریجنل ڈائریکٹرعلاوالدین خلجی کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں دوسرے صوبوں کی نسبت غربت کی شرح زیادہ ہے اور یہاں پر بڑی تعداد میں خواتین گھروں میں سلائی کڑائی, کشیدہ کاری اور ہاتھوں سے بنائے ہوئے دیگر ثقافتی اشیاء جس میں قالین, گلم, سوٹ اور اس جیسے دوسرے کام ان کا ذریعہ معاش ہے۔ چونکہ کورونا کے باعث مارکیٹوں کی بندش سے ان خواتین کو سخت مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کیوں کہ ایک طرف تو لوکل، نیشنل اور انٹرنیشنل مارکیٹیں بند ہوگئی تو دوسرے جانب آن لائن شاپنگ بھی راستوں کی بندش کی وجہ سے متاثر ہوئیں۔ اس طرح ان خواتین کا گزارا مشکل تر ہوگیا۔ عورت فاونڈیشن نے اپنے پروجیکٹ "جذبہ” اور ساتھی تنظیم سائوتھ ایشیاء پارٹنرشپ پاکستان کے ساتھ ملکر بلوچستان کے 4 اضلاع جس میں کوئٹہ, سبی, کیچ اور گوادر میں محنت کش عورتوں کی مالی مشکلات کم کرنے کیلئے راشن اور دیگر ضروری اشیاء تقسیم کی۔
علاوالدین خلجی کا کہنا تھا کہ کرونا کے پہلی لہر لاک ڈاون کے دوران گھریلوں تشدد میں بھی اضافہ ہوا جس کی وجہ سے رواں سال 9ماہ کے دوران بلوچستان میں 24خواتین کو قتل کیا گیا۔ لاک ڈاون کی وجہ سے متعدد کیسز رپورٹ نہیں ہوسکے۔ جبکہ 2019کے 11مہینوں میں 28خواتین قتل کی گئی۔ جبکہ غیرت کے نام پرقتل کے 22واقعات رونما ہوئے۔ جن میں زیادہ تر واقعات جعفر آباد اور نصیرآباد سے رپورٹ ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ایسے اضلاع جہاں تشدد کے واقعات کا کیسس بہت کم تھے اس سال وہاں سے گھریلو تشدد کے واقعات زیادہ رپورٹ ہوئے جیسا کہ پشین اور قلعہ سیف اللہ جہاں پر ایک ہی مہینے میں 4 خواتین کو قتل کیا گیا۔ علاوالدین خلجی کے مطابق خواتین پر تشدد کے واقعات بڑھ رہے ہیں جوکہ تشویشناک عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک رویوں میں تبدیلی نہیں آئے گی اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے. انہوں نے کہا کہ کرونا کی دوسری لہر سے یہ ہوم بیسڈ ورکرز دوبارہ متاثر ہوسکتی ہے۔ لہذا پالیسی ساز اداروں کو ان کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کیلئے خاطر خواہ اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
فاطمہ خان بلوچستان سے نیشنل کمیشن فار سٹیٹس آن دی وومن اور پاکستان ہیومن رائٹس ڈیفنڈر نیٹ ورک کی نیشنل سٹیرنگ کمیٹی کی رکن ہے۔انہوں نے کوئٹہ انڈکس کو بتایا کہ کرونا وباء کے باعث لاک ڈاون میں بلوچستان کی خواتین سخت مالی مشکلات کا سامنا رہا۔ ان کی سوشیو اکنامک ڈویلپمنٹ پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئیں۔ وہ خواتین جوکہ گھروں میں ہوم بیسڈ ورکرز کے طور سلائی کڑائی یا پھر دستکاری جیسے کام کرتی تھی اور یا پھر کسی گھر میں صفائی وغیرہ کا کام کرتی ہے اس دوران معاشی طور پر ان کی زندگیوں پر سخت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس دوران بے روزی کی شرح سے خواتین براہ راست متاثر ہوئی ہیں جوکہ گھریلوں تشدد کی وجہ اہم وجہ بھی ہے۔ ایسے کئی واقعات رپورٹ ہوچکی ہے جس میں مردوں کی بے روزگاری یا مالی مشکلات کا غصہ گھروں میں خواتین پر تشدد کی صورت میں نکلتا۔ معذور خواتین اور خواجہ سراہوں پر تشدد کے واقعات میں بھی تیزی آئی ہے
فاطمہ خان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے سندھ کے قریبی علاقوں میں خواتین پر تشدد کے جو واقعات رپورٹ ہوتے تھے اب بلوچستان کے پشتون علاقوں میں رونماء ہورہے ہیں۔ حال ہی میں پشین اور قلعہ سیف اللہ میں ہونیوالے واقعات اس کی ایک کھڑی ہے۔ خواتین کی تحفظ کے قوانین بلوچستان تعطل کا شکار ہیں۔ جن میں کم عمری شادی کا بل، غیرت کے نام پر قتل کا بل، تیزاب پھینکنے کے خلاف بل، اور خواتین کو جائیداد وراثت کا بل بلوچستان حکومت سے تعطل کا شکار ہے۔ ایواجی الائنس نے حال ہی میں اسی موضوع پر ایک پریس کانفرنس کی بھی تھی۔ایواجی الائنس خواتین پر تشدد کے خلاف 43سماجی تنظیموں کا ایک نیٹ ورک ہے جوبلوچستان میں خواتین پر تشدد کے واقعات کے خلاف شعور و آگاہی کے ساتھ ساتھ متاثر خواتین کی مدد کرتی ہے۔