کسی ملک کی تمیز اور تہذیب کا اندازہ لگانا ہو تو ان کے ٹریفک قوانین پر عملدرآمد اور ٹریفک جام میں برداشت کا مظاہرہ دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے
میرے گھر سے میری یونیورسٹی تک کا سفر بمشکل آدھا گھنٹہ ہوگا راستے میں گزرے اس مختصر دورانیے میں اتنی کہانیاں ملتی ہیں کہ میں کشمکش میں مبتلا ہو جاتی ہوں کہ استغفار پڑھوں یا الحمداللہ۔
گاڑی میں بیٹھے افراد موٹر سائیکل سواروں کو نالی اور فٹ پاتھ پہ موٹر سائیکل گزارتے دیکھ کے آہیں بھرتے ہیں۔۔
تو وہیں سردی میں ٹھٹھرتے موٹر سائیکل سوار گاڑی والوں کو دیکھ کے اپنی ترقی کی دعائیں کرتے ہیں۔
بہترین سوٹ بوٹ میں ملبوس افراد دو بار ہارن سننے پہ پیچھے والے کو ایسی ایسی گالیاں دیتے ہیں کہ اللہ اماں اگلے کا پورا شجرہ نسب کھنگال دیتے ہیں اور کبھی خوش قسمتی سے جب روڈ خالی مل جائے تو خوشی میں گیر اور بریک لگانا ہی بھول جاتے ہیں۔ خود اعتمادی کی انتہا یہ ہے کہ اس بات کی پرواہ ہی نہیں کہ غلطی کسی اور سے بھی ہو سکتی ہے۔
مختصر سے سفر میں رنگوں سے بھرے رشتے بھی خوب لبھاتے ہیں جہاں بائیک پہ سوئے ہوئے بچے کو باپ نے چادر سے خود پہ لپیٹا ہوتا ہے تو وہیں ہاتھ میں امتحان کا گتا لیے بیٹھی پریشان بیٹی کو تسلی دینے کی سرگوشیاں بھی سنائی دیتی ہیں ۔
ایک کونے میں ورکشاپ پہ کام کرتا ہوا بچہ جس کے چہرے کی معصومیت کو موبلائل کی کالک نے چھپایا ہوتا ہے تو کسی ریڑھی پہ کوئی بزرگ رزق کمانے کی خاطر اپنی قوت سے زیادہ اپنی ہمت دکھاتے چہرے پہ مسکراہٹ لئے نظر آتا ہے۔ چاہے کوئی گاڑی چلا رہا ہو یا کھوتا ریڑھی اگر غلطی سے کہیں کسی پہ خراش آجائے تو جنگ کا سا سماں بندھ جاتا ہے اور دونوں ہی پارٹیاں اس بات کو ماننے سے انکار کر دیتی ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کی غلطی ہے بلکہ ایک دوسرے کا سر پھاڑ نے کو تیار ہوتے ہیں۔
ون وے پہ جاتے ہوئے اگر سامنے کوئی غلطی کرتا نظر آ جائے تو تقریر جاری ہو جائے گی کہ ہماری قوم میں کون کون سی خامیاں ہیں گویا گھر سے یونیورسٹی تک کے اس سفر میں یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حیوانوں میں انسانیت انسانوں سے زیادہ ہے۔