اسلام آباد:
جو کوئی یہ کہتا ہے کہ خواتین میں مردوں کی طرح کارکردگی دکھانے کی صلاحیت نہیں ہے، اسے اپنے ریکارڈ درست کرنے کی ضرورت ہے۔ خواتین کو تعلیم کے بنیادی حق سے لے کرمعاشی خدمختاری تک، بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن پھر بھی، ہم مردوں کے شانہ بشانہ آگے بڑھتی چلی جاتی ہیں۔” ان خیالات کا اظہار خیبرپختونخوا کی رکن صوبائی اسمبلی اور قائمہ کمیٹی برائے اعلیٰ تعلیم کی چیئرپرسن مدیحہ نثار نے پاکستان یوتھ چینج ایڈووکیٹس (پی۔وائی۔سی۔اے) کے زیر اہتمام ورکشاپ کے دوران کیا۔
یہ ورکشاپ پی۔وائی۔سی۔اے کے پراجکٹ، "دیہی پاکستان میں تعلیم میں لڑکیوں کی شرکت میں اضافہ” کے تحت منعقد کی گئی تھی۔ ورکشاپ میں موجود نوجوان خواتین رضاکاروں کے ساتھ بات کرتے ہوئے مدیحہ نثار نے کہا کہ "یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ ایسی شاندار نوجوان خواتین اس ورکشاپ میں جمع ہوئی ہیں تاکہ لڑکیوں کی تعلیم کے عظیم اور اہم مقصد پر اجتماعی طور پر کام کیا جا سکے۔”
بلیو وینز کی پروگرام آفیسر ثنا احمد نے بھی ٹریننگ میں مہمان مقرر کے طور پر شرکت کی اور بتایا، ” لڑکیوں کی تعلیمکے حوالے سے میرا خاندان زیادہ لچکدار نہیں تھا۔ پھر بھی، میں نے اپنے حق کے لیے جدوجہد کی اور آج میں ایک پیشہ ور وکیل، سول سوسائٹی کی رکن اور خواتین کے حقوق کی علمبردار ہوں۔ میں شکر گزار ہوں کہ جب میری چھوٹی بہن اپنی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی، تو اسے میرے جیسےمسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور میرے سفر نے اس کے لیے راستہ ہموار کر دیا۔”
ورکشاپ کے مرکزی سہولت کاراور پی۔وائی۔سی۔اے کے پروگرام آفیسر جناب ہشام خان نے لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا، "یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان میں 22.8 ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ ان سکولوں سے باہر بچوں میں سے 53 فیصد لڑکیاں ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ، "سابق طلباء کے نیٹ ورکس بنانا لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے ایک اختراعی حل ہے۔ سابق طلباء کے رول ماڈل نہ صرف اسکول جانے والی لڑکیوں کی مدد کریں گے بلکہ ان کے والدین کو اپنی بیٹیوں کو اسکولوں میں داخل کرنے اور انہیں وہاں رکھنے کے لیے ترغیب دینے میں بھی مددگار ثابت ہونگے۔ موجودہ دور میں کم از کم 12 سال کی تعلیم ہر پاکستانی بچے بالخصوص لڑکیوں کی بنیادی ضرورت ہے۔”