اسلام آباد
“ہمیں اپنے ایک حالیہ پروگرام سے ایک پریشان کن تجربہ ہوا کہ نوجوان لڑکیوں کی زیادہ تر شادیوں کے نتیجے میں پچھلی زندگی سے رابطہ مکمل طور پر منقطع ہو جاتا ہے۔ سب کلاس فیلوز کے ساتھ رابطے میں رہنے، تعلیم جاری رکھنے، کیریئر شروع کرنے یا بااختیار بننےکے مواقع ضائع ہو جاتے ہیں۔ اریبہ شاہد، ایگزیکٹو ڈائریکٹر پاکستان یوتھ چینجایڈوکیٹس (PYCA) نے ایک ویبینار “شادی شدہ، لیکن خارج نہیں” کی میزبانی کے دوران ان خیالات کا اظہار کیا۔
اس ویبینار کا اہتمام PYCA اور inHive Global نے کیا تھا جس میں ملک بھر سے سماجی اداروں، ماہرین تعلیم اور یونیورسٹی جانے والی نوجوان لڑکیوںنے شرکت کی۔مدیحہ نثار، ایم پی اے کے پی اسمبلی اور نائب صدر کے پی ویمن پارلیمانی کاکس نے اپنے اپنے ویڈیوپیغام میں بتایا”ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی 18 سے 25 سال کے درمیانکی عمر عموماً شادی کے لیے مثالی تصور کی جاتی ہے۔ جب لڑکی کی چھوٹی عمر میں شادی ہو جاتی ہے تو اس کے لیے اپنی تعلیمیا کیریئر کو آگے بڑھانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ میں ذاتی طور پر ان مشکلات سے گزری ہوں۔میری شادی بھی پڑھائی کے دوران ہوئی اور زندگی میں اچانک تبدیلی، نئے ماحول سے ہم آہنگ ہونا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم کو جاری رکھنا ایک بڑا چیلنج تھا۔”
نوجوان شادی شدہ خواتین کودرپیش مشکلات کے بارے میں بات کرتے ہوئے، بلیو وینز کے کوآرڈینیٹر قمر نسیم نے بتایا “نوجوان شادی شدہ خواتین کو اپنے پروگرام کا حصہ بنانے میں سب سے بڑی مشکل فیصلہ سازی کی طاقت ہے جو خود لڑکی کی بجائے اسکے سسرال اور خاندان کے مرد سربراہوں کے کنٹرول میں ہے۔ ہم اپنیپروگراموں کو جامع بناتے ہیں اور ہم نوجوان شادی شدہ خواتین کو شرکت کی ترغیب دیتے ہیں چاہے انہیں اپنے بچوں کو ساتھ لانے کی ضرورت ہو تاکہ انہیں اپنے بچوں کی پریشانی نہ ہو۔”
پاکستان کولیشن فار ایجوکیشن کی جانب سے روبیحہ طاہر نے بتایا “کم عمری میں شادی کے بعد اگرلڑکیاں واپس اسکول جائیں بھی تو اسکول کے ماحول میں ان کے ساتھ مختلف سلوک کیا جاتا ہے، ہمیں ان نوجوان شادی شدہ لڑکیوں کے لیے بالغ خواندگی کے پروگراموں میںمزید سرمایہ کاری کرنی چاہیے جو وقت سے پہلے سکول سسٹم سے باہر ہو چکی ہیں۔ ہمیں صرف انکی تعلیم پر ہی توجہ نہیں دینی چاہئے بلکہ انہیں مالیاتی اور ڈیجیٹل خواندگی کے ساتھ ساتھ زندگی کی مہارتوں سے بھی آراستہ کرنا چاہئے۔”
پشاورسے تعلق رکھنے والی نوجوان کاروباری شخصیت کائنات فاطمہ نے اپنے تجربات کے بارے میں شرکاہ کوآگاہ کیا “نوجوان شادی شدہ لڑکیوں کے لیے روزگار کے مواقع سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ہم اکثر مساویطور پر موقع دینے والیکمپنیوں کی طرف سے نوکریوں کے اشتہارات دیکھتے ہیں لیکن وہ شادی شدہ لڑکیوں کو آسامیوں پر اپلائی کرنے سے روکتے ہیں۔ بہت سینوکری کرنے والی لڑکیوں کے رشتوں میں نوکری چھوڑنے کی شرط ہوتی ہے۔ ایسے حالات میں لڑکی کے گھر والے بھی اس کے کریئر کے انتخاب کی حمایت نہیں کرتے۔ وہ ترجیح دیتے ہیں کہ وہ نوکری چھوڑ کر شادی کر لے۔”