کوئٹہ
سول سوسائٹی کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ خواتین کو معاشی طور پر با اختیار بنانے سے پورے معاشرے میں با اختیار بنایا جاسکتا ہے۔ بلوچستان میں خواتین کے کام کرنیوالی تنظمیں خواتین کی فلاح و بہودکے علاوہ ان کو صحت اور کاروباری مواقعے فراہم کرنے میں معاونت فراہم کرتی ہے۔ کوئٹہ میں وومن لیڈ الائنس کیجانب سے منعقدہ ورکشا پ سے ڈپٹی سیکرٹری وومن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ جہاں آراں تبسم، بلوچستان وومن بزنس ایسوسی ایشن کی چیئرپرسن ثناء درانی، عبدالحئی ایڈووکیٹ، وومن لیڈ الائنس کی کوارڈی نیٹر نمرہ ملک اور دیگر نے خطاب کیا۔
اس موقع پر مقررین کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں اس وقت 3وومن کراسس سینٹر کام کرر ہے ہیں جبکہ 4مزید سینٹرز پر کام جاری ہے۔خواتین کے شناختی کارڈ سے لیکر ووٹ کے اندراج اور ووٹ کے استعمال کے لیے کام کرنا ہوگا کیوں کہ ووٹ کے استعمال کے استعمال سے خواتین میں فیصلہ سازی کا رجحان فروغ پائے گا جس سے معاشرے میں مثبت تبدیلی موثر امکانات ہے۔ بلوچستان میں دفاتر اور دیگر کام کرنیوالی جگہوں پر خواتین دوست ماحول اور پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات کے خاتمے کے لیے قانون موجود ہے اور اس پر عملدرآمد بھی ہورہا ہے۔
وومن ڈیپارٹمنٹ720 گریجویٹ لڑکیوں کو انٹرن شپ کے مواقعے فراہم کررہا ہے جس کا انہیں ماہانہ وضیفہ بھی دیا جائے گا ۔ بلوچستان کے تین اضلاع میں خواتین بازاروں کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے جہاں دکانوں میں خواتین ہی کام کرے گی۔ جبکہ 2اضلاع میں ورکنگ وومن ہاسٹل کے قیام پر بھی کام ہورہا ہے جہاں برسرروزگار خواتین کو قیام کے لیے جگہ فراہم کی جائے گی۔ بچیوں کی کم عمری شادی کے قانون بلوچستان میں تاحال پاس نہیں ہوسکا جس کی وجہ پارلیمٹیرین کی اختلاف ہے۔ وفاقی سطح پر موجود قانون میں شادی کے لیے لڑکیوں کی عمر کی 16سال ہے جبکہ زیر غور صوبائی بل میں اس کی حد بڑھا کر 18سال کردی گئی ہے۔ اس قانونی بل کو 2017ء میں اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے لیکن تاحال اس کو پاس نہیں کرایا جاسکا۔