آئین کا آرٹیکل نمبر 19شہریوں کو معلومات تک رسائی کا حق فراہم کرتا ہے اسی مقصد کیلئے 2005ءمیں فریڈم انفارمیشن آرڈیننس کا قانون بنایا گیا۔ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد صرف پنجاب اور خیبر پشتونخوا میں رائٹس ٹو انفارمیشن کے قوانین کا نفاذ عمل میں لایا گیا جبکہ سندھ اور بلوچستان لوگ ابھی تک اس قانون سے محروم ہے۔
کوئٹہ: دین محمد وطن پال
رائٹس ٹو انفارمیشن کا قانون عام لوگوں کو حق دیتا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے سرکاری ریکارڈ اور معلومات تک رسائی حاصل کرسکے ۔ کرپشن کی وجہ سے کوئی حکومتی ادارہ نہیں چاہتا کہ یہ قانون بنے اور سرکاری ریکارڈ تک کسی کو رسائی حاصل ہو۔ رائٹس ٹو انفارمیشن کے قانون کے نفاذ کے بعد بلوچستان میں ایک با اختیار اور شفاف اتھارٹی کی ضرورت ہے تاکہ عام لوگوں کی معلومات تک رسائی ممکن ہو۔ جہاں پر شفافیت نہ ہو وہاں ایسے قوانین بنانے میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ سرکاری اداروں میں شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے ٹھوس حکمت عملی اور قانون سازی ضرورت ہے۔
میڈیا فاﺅنڈیشن 360 کے زیر اہتمام صحافت کے طالبعلموں اور پیشہ ور صحافیوں کے لیے تین روزہ تربیتی ورکشاپ کے اختتام پر منعقدہ فورم سے میئر کوئٹہ ڈاکٹر کلیم اللہ ، ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کیپٹن (ر) فرخ عتیق، ڈی آئی جی پولیس ٹیلی کام حامد شکیل صابر، ڈی جی پی آر کے ممتاز ترین اور سینئر صحافی شہزادہ ذوالفقار ، سلیم شاہد، اورنگ زیب خان اور اظہر خان نے خطاب کیا۔
اس موقع پر مقررین کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل نمبر 19شہریوں کو معلومات تک رسائی کا حق فراہم کرتا ہے۔ صرف خیبر پشتونخوا اور پنجاب میں رائٹس ٹو انفارمیشن کے قوانین موجود ہیں جس کے تحت شہریوں کو پبلک ریکارڈ تک معلومات کی رسائی حاصل ہے اور لوگ اس سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔ جبکہ بلوچستان اور سندھ میں ابھی تک یہ قانون التواءکا شکار ہے تاہم بلوچستان میں فریڈم انفارمیشن آرڈیننس 2005شہریوں کو معلومات تک رسائی کا حق حاصل کرتا ہے۔ بلوچستان میں 2015ءکو رائٹس ٹو انفارمیشن قانونی مسودہ اسمبلی میں پیش کردیا گیا لیکن ابھی اسے اسمبلی سے پاس نہیں کرایا گیا جوکہ ڈراپ کی شکل میں موجود ہے۔ آر ٹی آئی کا قانون حکومت میں شفافیت کو بہتر بنانے میں بھی مدد ثابت ہوگا۔ اس قانون کے پاس ہونے کے بعد بلوچستان میں ایک با اختیار اور شفاف اتھارٹی کی ضرورت ہے تاکہ عام لوگوں کی معلومات تک رسائی ممکن ہو۔ کرپشن کی وجہ سے کوئی حکومتی ادارہ نہیں چاہتا کہ یہ قانون بنے اور سرکاری ریکارڈ تک کسی کو رسائی حاصل ہو۔
محکمہ پولیس کے حوالے سے مقررین کا کہنا تھا کہ پولیس آفیسرز کی میڈیا کے ساتھ تعلقات، رابطہ کاری اور میڈیا کو ڈیل کرنے کی تربیت نہیں دی جاتی ۔ جس کی وجہ انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پولیس محکمہ میں دو قسم کے معلومات ہوتی ہے جن میں ایک خفیہ معلومات جو کسی کو بھی فراہم نہیں کی جاتی ایسے معلومات صرف عدالت کت حکم پر فراہم کئے جاتے ہیں اور ایک عام معلومات ہوتی ہے جو ہر شہری کو فراہم کی جاسکتی ہے ایسے معلومات جن کے کیسز زیر التواء ہو یا اس پر مزید کام ہورہا ہو یا اس سے کسی قسم کا سیکیورٹی صورتحال میں خلل پڑ سکتا ہو اس قسم کی معلومات نہیں دی جاسکتی ۔ پولیس محکمہ سے معلومات حاصل کرنے کیلئے متعلقہ آفیسر سے رابطہ کرنا ہوتا ہے ۔
آر ٹی آئی کے نفاذ کے بعد تمام اضلاع میں آفیسر تعینات کرنے ہوں گے۔ تاکہ متعلقہ آفیسر کے ذریعے لوگ پبلک ریکارڈ تک باآسانی رسائی حاصل کرسکے۔ متعلقہ آفیسر درخواست دہندہ کے درخواست کے بعد مقررہ ایام میں انہیں معلومات فراہم کرے گا ۔ معلومات فراہم نہ کرنے پر ان کے خلاف کاروائی بھی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔
پبلک ریکارڈ سے متعلق معلومات تک رسائی عوام کا حق ہے اور حکومت کی ذمہ داری کہ انہیں ان کا حق دے۔ جہاں پر شفافیت نہ ہو وہاں ایسے قوانین بنانے یا ان پر عملدر آمد میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ سرکاری اداروں میں شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے ٹھوس حکمت عملی اور قانون سازی ضرورت ہے۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن میں ہر شہری کو کسی بھی قسم کی معلومات فراہم کی جاتی ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے صرف قانون سازی ہی نہیں بلکہ اس پر عملدرآمد اس سے زیادہ ضروری ہے۔ ہمارے پاس ایسا نظام موجود نہیں ہے کہ جس کے ذریعے ہم مقررہ دنوں میں انہیں ریکارڈ سے متعلق معلومات فراہم کرے۔ تمام تر ریکارڈ مینول پڑا ہے اسے کمپیوٹرائزڈ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اگر کسی کو کسی قسم کی معلومات یا ریکارڈ کی ضرورت ہو تو ہم فوری طور پر اس کا مسئلہ حل کرسکے۔