چمن
سطح سمندر سے 1949 میٹر کے بلندی اور چمن شہر سے 35 کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع توبہ اچکزئی جوکہ ملک بھر میں زراعت بلخصوص سیب کے باغات کے لحاظ سے بے حد مشہور ہے جس میں سو کے قریب گاوں جبکہ آبادی ایک لاکھ سے زائد ہیں بغرہ ٹاف روڈ واحدایک ہی راستہ ہے جو یہاں کی نصف آبادی کو چمن شہر سے ملاتی ہے جس سے وہ پھل سبزیاں اور سوختنی لکڑی چمن شہر لاتے ہے اورچمن شہر سے وہ اشیاء خوردنوش ودیگر ضروریات پورا کرتے ہے حالیہ مون سون کے تباکن بارشوں کے دوران بغرہ ٹاف روڈ پر جگہ جگہ روڈ سلائیڈنگ اور مختلف مقامات پر ندی نالوں میں پل اور روڈ بہہ گئی تھی جس کے باعث یہ راستہ گیارہ دن تک مسلسل بند رہا اور دونوں جانب سینکڑوں کی تعداد میں لوگ پھنس گئے تھے۔
توابہ گوال اچکزئی کے رہائشی شمس الدین اچکزئی نے بتایا کہ 8 اگست مون سون کی تیسری اسپیل کے دوران میں اپنے باغ میں سیبوں کے ان درختوں کو سہار دینے کے لیے رسی سے باندھ رہے تھے جو پہلی اور دوسری اسپیل کے دوران بری طرح متاثر ہوئی گھر سے بوڑھی ماں نے آواز دی کہ شمس الدین بیٹھا اپ اجائے علاوالدین اور صلاح الدین دست اور قے کی بیماری میں مبتلا ہوچکے ہیں پوری طور ہسپتال پہنچا دے میں نے پورا گاڑی کوسٹارٹ کیا اور چمن کا رخ کیا بغرہ ٹاف سے ہمارے گاؤں تقریبا بتیس کیلو میٹر کے فاصلے پرہے بارشوں سے پہلے ہم بیس منٹ میں ٹاف تک پہنچتے تھے لیکن علاقے کا راستہ بھی خراب تھا جو بمشکل ہم تین گھنٹے کے بعد ٹاف سر تک پہنچے جب ہم نے تین چار موڑ کاٹ لیے تو کربین کے مقام پر روڈ سیلابی ندی میں بہہ گئی تھی اور ہم بمشکل اس جہگے سے کراس ہوئے اور اپنے سفر کو جاری کیا بیمار بچوں کے خاطر میں جلدی میں تھا کہ جتنا ممکن ہوسکے چمن تک پہنچ جائے لیکن جب بغرہ کے علاقے میں ہم داخل ہوئے تو بغرہ کا مین رابطہ پل ٹوٹ چکا تھا ایک کیلو میٹر پر سیلابی ریلے پھیلائے ہوئے تھے ہمارے اگے جانا ممکن نہیں تھا بیمار بچے اور بوڑھی ماں ساتھ تھے ہم نے اپنے گاڑی کو ایک محفوظ جہگے پر کھڑا کیا اور اس انتظار میں تھے کہ پانی کا بہاؤ اگر کچھ کم ہوجائے تو ایک راستہ نکالینگے لیکن بارش ایک بار پر زور سے شروع ہوئی ایسا لگتا تھا جیسا قیمت ہے میں نے زندگی میں پہلی بار دیکھا کہ پہاڑ بہہ رہی ہے پہلے کچھ امکان تھا کہ ہم چمن تک پہنچ جائے لیکن اب امیدیں دم تھوڑ گئی ایسی دوران سوچھتا رہا کہ اب کیا ہوگا واپس جائے تو کہا کیونکہ علاقے میں کوئی ایسا سہولت موجود نہیں ہے کہ ہم اپنے بچوں کا علاج کرے گھریلوں ٹوٹکے سارے ازمائے گئے اخری حل چمن ڈسٹرکٹ ہسپتال یا پرائیوٹ کوئی کلینک تھا جب سورج غروب ہونے کو تھا تو ہم نے امی سے کہا کہ امی جان رات ہورہی ہے جو ہوگا اس پر صبر واپس چلتے ہے جب میں نے گاڑی سٹارٹ کیا پھر اچانک سوچھا کہ چلو دہ شپنیناؤ کلی جاتے ہے۔
چرواہی گاؤں بغرہ پہاڑوں کی دامن میں پندرہ گھرانوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی گاؤں ہے جوکہ اس گاؤں کے اکثر مرد چرواہی ہیں اورگاؤں کانام بھی ان اس منسوب ہے جب ہم اس گاؤں تک پہنچے تو سورج غروب ہوا جب ہم نے چرواہی گاؤں کے رہائشی محمد افضل کے گھر پناء لی تو انہیں اپنے مشکلات سے آگاہ کیا محمد افضل نے کہا کہ عام راستہ تو بالکل بند ہے ایک راستہ ہے البتہ ان پر گاڑی نہیں صرف گدھوں کے زریعے دوگھنٹوں میں آپ سوئی کاریز تک جاسکتے ہیں پھر وہاں سے کرایے کی گاڑی مل جائے گا انشاء اللہ دس بجے چمن میں ہونگے میں نے حامی بھر لی اور گاڑی کو محمد افضل کے گھر کھڑا کیا اور اپنا سفر شروع کیا جیسے ہی ہم سوئی کاریز پہنچے تو گاڑی کرایے پرلی اور چمن کی طرف نکل پڑے دس بج کر پندرہ منٹ پر ہم سول ہسپتال چمن پہنچے اور طبعی عملے نے فورا بچوں کا علاج معالجہ شروع کیا تین دن تک ہم ہسپتال میں داخل تھے جب ہسپتال سے ڈس چارج ہوئے تو گھر کے لیے خوردنی اشیاء بھی خریدا اور ایک مسافر ویگن کودے دیا تھا جوتوبہ اچکزئی اور چمن کے راستے چلتے ہیں ہمارا چوتھا دن جب ہم گھر سے نکلے تھے بغرہ ٹاف روڈ چوتھے روزسے ہر قسم کے ٹریفک کے لیے بند تھا تو جسطرح ہم ائے أسی طرح چرواہی گاؤں تک ہم پہنچے۔ شمس الدین ہمیں یہ بتائیں کہ اب چونکہ موسم سرما کی بارشوں اور برف باری کا سیزن ہے اگر یہ موسم آفت ۔ توبہ استغفراللہ میں سمجھ گیا کہ اپ کیا پوچھ رہا ہے اگر اس موسم میں حد سے زیادہ بارشیں اور برف باری ہوئی تو یہاں ایک بڑا انسانی المیہ رونما ہوسکتا ہیں کیونکہ اس موسم میں دو سےتین فٹ تک برف باری ہوتی ہیں اگر ایک دن کے لیے یہ راستہ بند ہوجائے تو جتنے بھی پھنسے ہوئے لوگ ہے وہ سب کے سب موت کے منہ میں چلے جائینگے کیونکہ سرما کے موسم میں یہاں کا درجہ حرارت منفی 16 سے 17 سینٹی ڈگری تک گر جاتا ہے اور راستہ ایک ماہ تک بند رہ سکتا ہیں۔۔راستہ کھولنے کے لئے محکمہ بی اینڈ ار نے جو کام کیا کیا وہ تسلی بخش ہے ۔ محکمہ بی اینڈ ار نے صرف راستہ کھول دیا البتہ اس روڈ پر تعمیر کا کوئی کام نہیں ہوا صرف روڈ سے مٹی اور بجری کو بلڈوزر کی مدد سے ہٹایا اور روڈ میں جو کھڈے بن گئے تھے انہیں بھروادئے خدانخواستہ اگر موسم سرما میں حد سے زیادہ بارشیں ہوئی تو یہ راستہ پھر سے بند ہوگا کیونکہ متاثرہ پل اور سڑک کو دوبارہ تعمیر کی ضرورت ہے اور دوبارہ تعمیر کے دوران اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ جو پل یا سڑک بنائے گئے کیا وہ دوسری آفت کا متحمل ہوسکے گا کیونکہ یہ راستہ توبہ اچکزئی کی نصف آبادی کوچمن شہر سے ملاتی ہے۔
محکمہ بی اینڈ ار کے ایکسین ایمل خان نے بتایا کہ ہماری ٹیم دوسری اسپیل کے دوران متاثرہ کلی روغانی روڈ پر کام کررہے تھے کیونکہ یہ روڈ پندرہ دیہات کو چمن شہر سے ملاتی ہے اور میں خود مانیٹر کررہا تھا کہ جتنا ممکن ہوسکے دیہات کے رابطہ سڑکیں شہر سے بحال کرسکے اور کلی سکان کانڑی میں کمرے کی چھت گرنے سے خاتون اور اس کا چار سالہ بیٹا جانبق اور ساتھ ساتھ ابتو کاریز میں دو بچے دیوار گرنے سے شدید زخمی ہوئے تھے امدادی ٹیمیں روڈ کے خرابی کی وجہ سے وہاں دیر سے پہنچی تو ہماری ٹیمیں اندورن شہر میں مصروف تھی ۔اٹھ دن کے بعد ہم نے بغرہ ٹاف روڈ پر کھولنے کا کام شروع کیا اسطرح کی بارشوں کا ہم نے سنا تھا لیکن دیکھا پہلی بار دن اور رات کو ایک کرکے دودن میں ہم نے راستہ امدورفت کے لیے کھول دیا ۔سر اب چونکہ موسم سرما کی بارشوں اور برف باری کا سیزن ہے اگر حد سے زیادہ بارشیں یابرفباری ہوئی تو آپ کتنا مطمئن ہے کہ یہ روڈ دوبارہ بند نہیں ہوگا۔ روڈ سے ہم نے صرف سیلابی ریلوں کا رخ موڑ لیا اور جو ندی نالوں میں بہہ گئے اس کو بلڈوزر کے زریعے صرف امدورفت کے لیے بحال کردیا لیکن اس روڈ پر دوبارہ تعمیر کی ضرورت ہے کیونکہ چار پل اور دو کیلومیٹر روڈ سیلابی ریلوں میں مکمل طور بہہ گئی ہم نے اس روڈ کی رپورٹ صوبے کو دی ہے۔اس سے پہلے صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل نصیر احمد ناصر نے اپنے ایک رپورٹ میں کہا کہ مون سون کے تباکن بارشوں کے دوران صوبے میں 336 افراد جانبحق جبکہ 187 افراد زخمی ہوئے3 لاکھ 21 ہزار 19 مکانات تباہ اور 5 لاکھ 90 ہزار 439ایکڑ پر کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا 2 لاکھ 92 ہزار 526مویشی سیلابی ریلوں میں بہہ گئے جبکہ103ڈیمز اور 2 ہزار 2 سو 21 کیلو میٹر قومی اور بین الصوبائی اور لنک شاہراہیں شدید متاثر ہوئی۔متاثرہ شاہراوں کو دوبارہ مرمت و تعمیر کے لیے اربوں روپے درکار ہے پاکستان کو بیرونی دس ارب امریکی ڈالر امداد کی شکل میں ملے ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ بلوچستان کو اس رقم میں کتنے ملے گے اور دوبارہ بحالی کاکام کب شروع ہوگا تاہم صوبے کے لاکھوں متاثرین اب بھی حکومتی امداد کے منتظر ہے