دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث صحت، تعلیم،غربت اورسماجی شعورسے متعلق مسائل بھی گھمبیر شکل اختیا کرچکے ہیں حکومتوں کیلئے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ سرکاری سطح پر یہ مسائل حل کرسکیں اس وجہ سے اقوام عالم میں قائم حکومتوں نے غیر سرکاری سطح پر ان شعبوں میں شعور پھیلانے اور خصوصاً صحت کے شعبے سے منسلک مہلک بیماریوں کے روکتام کیلئے اقدامات اٹھانا شروع کردیئے جو کہ کسی حد تک کامیاب ثابت ہوئیں جس سے دنیا بھر میں غیر سرکاری سطح پر بھی رابطہ کاری کے سسٹم کو فروغ ملی۔دنیا کے اقوام کو ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کے مواقع ملیں یکم دسمبر ہمیں اقوام عالم کے درمیان رابطہ کاری اورغمرازی میں شریک ہونے کی یاد دلاتا ہے اورپوری دنیا میں اس دن ایچ آئی وی اور ایڈز کے مریضوں سے اظہاریکجہتی کا عالمی دن منایا جاتاہے۔
یکم دسمبر جو پوری دنیا کے اقوام مشترکہ طور پر ایچ آئی وی اورایڈز کے مریضوں سے اظہارمحبت اور ان کے درد وغم میں شریک ہونے کیلئے مناتے ہیں۔ اس دن پوری دنیا میں لوگ جمع ہوکر اس مہلک بیماری کے روکتام کیلئے اقدامات اورلوگوں میں شعورپھیلانے کے حوالے سے حکمت عملیاں تشکیل دیتے ہیں تاکہ اس مہلک بیماری کو ختم کیا جاسکے یہ دن 1988میں عامی وزارت صحت کے زیر اہتمام عالمی کانفرنس میں میں منظور کرادہ کرارداد کے بعد منائی جاتی ہے جبکہ 2005سے یہ دن عالمی ایڈز کمپیئن کیجانب سے منعقدہ کیا جاتاہے اس موقع پر ضروری ہے کہ ہم انسانیت کے خلاف بڑھتے ہوئے اس خطرے کو سمجھیں اوراس سے بچاؤ کی کوششوں میں تمام دنیا کاساتھ دیں۔اس مشن کے تحت اس وقت دنیا بھر میں لاکھوں کی تعداد میں سرکاری اورغیرسرکاری تنظیمیں اس بیماری کی روکتام کیلئے سرگرم عمل ہیں جس پرہر سال اربوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس بیماری کو نہیں روکا جاسکا پاکستان میں خصوصاً بلوچستان میں بھی اس بیماری کی روکتام اورلوگوں میں شعور اجاگر کرنے کیلئے 100کے قریب سرکاری وغیر سرکاری تنظیمیں سرگرم عمل ہونے کے باوجودبلوچستان میں 374افراد ایچ آئی وی اور 68افرادایڈز کے مرض میں مبتلاہیں۔شعور کے حوالے سے تو صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہاں تو صرف اورصرف خانہ پوری اور کاغذی کارروائی فوری کرکے فائل کو بند اور فنڈز کو ہڑپ کیا جاتاہے جبکہ ایک عام ادمی کو اس بیماری کے بارے میں صرف انتا ہی علم ہے کہ یہ بیماری جنسی تعلقات سے پھیلتی ہے اور اس کا کوئی علاج نہیں اگر کسی عام شخص پوچا جائے تو وہ ایچ آئی وی اور ایڈز میں فرق نہیں بتا سکے گا
بلوچستان میں ایچ آئی وی اورایڈز پر کام کرنیوالے تنظیمیں صرف اورصرف یکم دسمبر جوکہ اس مرض کے روکتام اوراس کے مریضوں سے اظہاریکجہتی کا عالمی دن ہے نظر آتی ہے باقی ان کے دفاتر میں ہفتوں تک چھٹیاں ہی ہوتے ہیں پورے سال میں کروڑوں کے بجٹ میں بمشکل کوئی تربیتی ورکشاپس کرواتے ہیں جس میں نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام،صوبائی ایڈز کنٹرول پروگرام،ایڈز نیٹ ورک،این جی اوز نیٹ ورک،گلوبل فنڈ،یواین ایڈز،ایڈز 2010کمیونٹی (بین الاقوامی ایڈزپروگرام)،Y-Peerایڈز کنٹرول کا عالمی تنظیم جو یہاں کے لوکل تنظیموں کے شراکت سے کام کررہی ہیں شامل ہیں اور اگرہم ان سب کارکردگی کااندازہ لگاتے ہیں تو مایوسی کے سوا اورہمیں کچھ نہیں ملے گاسب کے سرگرمیاں صرف اپنی جیبوں تک ہی محدود ہیں اس ضمن میں کچھ ادارے سرگرم بھی ہیں اُن کے پروگراموں سے عام لوگوں کو بھی واقفیت حاصل ہے جن میں پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی سرفہرست نظرآئے گی کیونکہ اس شعبے میں یہ وہ واحد ادارہ ہے جس نے سال 2008سے اب تک 500سے زائد نوجوانوں کوyouth-peerکاتربیت دے کر انہیں اس قابل بنایا کہ وہ نہ صرف دوسرے لوگوں کواس مرض سے بچاؤ کے حوالے سے مکمل آگاہی دے سکے بلکہ وہ دوسرے درجنوں نوجوانوں کو تربیت بھی دیتے ہیں اور اس پروگرام کے تحت ہر بار نئے نوجوانوں کو موقع دیا جاتاہے تاکہ وہ اس بیماری کے تدارک کیلئے دوسراں تک بھی یہ پیغام با آسانی پہنچاسکے۔اوراگر ہم تھوڑا سا اس بیماری کے حوالے سے کتاب کھولے تو ہمیں کچھ یوں بتا یا جائیگاکہ کراہ ارض پر 1959میں افریقہ کے ایک رہائشی جس کی موت ایک عجیب وغریب بیماری کے باعث واقع ہوگئی جس کے بعد افریقہ میں اس جراثیم کی دریافت کیلئے 1200سے زائد خون کے نمونوں پر تحقیق کی گئی اور یہ بھی معلوم کردیا گیا کہ اسی ایک شخص نے یہ جراثیم 50کے قریب مزید لوگوں کو منتقل کیا تھا اس کے بعد ایڈز کا دوسراواقعہ 1981میں امریکہ میں پیش آیا جبکہ پاکستان میں اس ایڈزکا پہلا کیس 1986-87میں سامنے آیا تاحال اس جراثیم کے خاتمے اور تدارک کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا اورنہ ہی کوئی حفاظتی ٹیکے ممکن ہے اس بیماری کا روک تھام صرف اور صرف انسانی رویوں میں تبدیلی سے ہی ممکن ہے
یہ بیماری دراصل میں دو ناموں پر مشتمل ہے ”ایچ آئی وی اورایڈز“جو کہ دو الگ نام ہے ایچ آئی وی ایک انسانی جرثومہ جو کہ انسان کے اندر پائے جانیوالے خلیوں میں پایاجاتاہے جو جسم میں مدافعتی نظام کو کمزورکرکے ختم کردیتاہے مدافعتی نظام جسم میں جراثیم کیخلاف سیکیورٹی سسٹم کا کردار اداکرتی ہے جسم کو نقصان پہنچانے والے جراثیم کے خلاف لڑھتے ہوئے اسے ختم کردیتاہے جبکہ ایچ آئی وی کے جراثیم جسم میں داخل ہوتے ہی مدافعتی نظام (جسم کے سیکیورٹی سسٹم)کونچانہ بناتاہے اورآہستہ آہستہ اسے کمزورکرکے ختم کردیتاہے مدافعتی نظام کے کمزورہونے سے انسان کے جسم میں اندرونی طاقت بلکل ختم ہوجاتا ہے اوراس کے بعد انسان کو ایڈز کے مرض کا خطرہ لاحق ہوجاتاہے اور ایڈز جوکہ چھوٹے چھوٹے بیماریوں کا مجموعہ ہے جو ایچ آئی وی لاحق ہونے کے بعد انسان پر اثرانداز ہوجاتی ہے جسم میں سیکیورٹی سسٹم کمزور یاختم ہونے کے باعث یہ حملہ آور ہوتاہے اورجسم کو نقصان پہنچانا شروع کردیتاہے اور بالآخر اس بیماری سے انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے یہ بیماری خطرناک اورلاعلاج ضرور لیکن اس کی تدارک اور روکتام مشکل نہیں۔۔۔یہ بیماری آسانی سے ایک انسان سے دوسرے انسان کو منتقل ہوتی ہے ایچ آئی وی کے جرثیم سے متاثرہ آلات بھی ایڈز کی بیماری پھیلنے کا ذریعہ ہیں خاص طور پر اگر استعمال شدہ سرنج کو دوبارہ استعمال کیا جائے،نشہ کے عادی افراد ایک ٹیکہ میں نشہ آور دوائی بھرکر یک ہی سوئی کے استعمال سے بھی یہ بیماری پھیلتی ہے،ایڈز کے وائرس سے متاثرہ اوزارمثلاً کان، ناک چھیدنے والے اوزار،حجام کے استعمال شدہ بلیڈ اوردانتوں کے علاج میں استعمال ہونیوالے اوزار سے بھی ایڈز پھیلتا ہے ایڈز کا وائرس حمل کے دوران یا پیدائش کے بعد متاثرہ ماں سے بھی بچے میں منتقل ہوسکتاہے۔ اورآخر کار اس مرض ہی کے باعث مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے ایڈز جیسے ناسور کی تدارک کیلئے معاشرے کے ہر فرد کو کردار اداکرنا ہوگا ایڈز کی بیماری دنیا میں تیزی سے پھیل رہی ہے اگرچہ ایڈز ایک لا علاج مرض ہے لیکن اس سے باآسانی بچایا جاسکتا ہے ایڈ زسے متاثرہ شخص کے پاس بیٹھنے یا گلے ملانے سے ایڈز نہیں پھیلتی۔ اس بیماری کو اس لئے خطرناک قراردیدیا گیا ہے کہ اس کا علاج تاحال نہیں ڈھونڈا گیا ہے تاہم مریکی سائنسی محققین کے تحقیق کے مطابق ایسی تین اینٹی باڈیز کی اقسام دریافت ہوئی ہیں جن میں سے ایک کی ایڈز کے خلاف لڑنے کی صلاحیت90فیصد سے بھی زیادہ ہے۔چند افراد کے جسم کے مدافعتی نظام میں ایسی طاقت ور پروٹین پیدا ہوتی ہیں جو انہیں اس بیماری سے متاثر ہونے کے بعد بھی زیادہ عرصے زندہ رہنے کی طاقت مہیا کرتی ہیں۔ماہرین کی یہ کوشش ہے کہ وہ ان اینٹی باڈیز کی مدد سے ایسی ویکسین تیار کرلیں جو انتہائی موثر طریقے سے ہر انسان کے جسم میں داخل ہونے کے بعد ایسی سپر اینٹی باڈیز کی نشوونما اور پیداوار شروع کردے۔