کچھی؛
بلوچستان میں حالیہ سیلاب کے بعد بچوں کے نیوٹریشن کیسز میں 30 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ ضلع کچھی بچوں کے کم وزن کیسز میں ضلع کچھی پہلے نمبر پر جبکہ کم قد اور لاغرپن میں دوسرے اس ضلع کو پورے صوبے میں دوسرے نمبر کا اعزاز حاصل ہے۔ بلوچستان میں ہر 10 میں سے 5بچے میں چھوٹے قد کا شکار ہے۔ 2018ء قومی نیوٹریشن سروے کے مطابق بچوں میں لاغر پن کا سامنا کرنیوالے اضلاع میں 33.9فیصد کے ساتھ جعفراباد پہلے نمبر ہے۔ بلوچستان میں 61.1فیصد مائیں پیدائش کے بعد پہلے گھنٹے میں بچے کو دودھ پلاتی ہے۔43.9فیصد خواتین 6ماہ تک، 69.5فیصد خواتین ایک سال تک اور 57.3فیصد خواتین دو سال تک بچوں کو دودھ پلاتی ہے۔ کم قد والے بچوں کی شرح میں بلوچستان میں پہلے نمبر ضلع قلات ہے جہاں یہ شرح 62.9فیصد ہے۔ کم وزن کا سامنا کرنے والے بچوں کی شرح میں بالترتیب خاران اور کچھی کو پہلا نمبر حاصل ہے ان دونوں اضلاع میں یہ سطح 57.4ہے۔
2018میں کئے جانیوالے قومی نیوٹریشن سروے کے مطابق بلوچستان میں اس وقت شدید خوراک کے کمی کے باعث لاغر پن کا سامنا کرنیوالے اضلاع میں 33.9فیصد کے ساتھ جعفراباد پہلے نمبر ہے۔ جبکہ اس کے بعد کچھی میں یہ شرح 29.6فیصد ہے۔ جھل مگسی 28.2فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر، صحبت پور 28فیصد کے ساتھ چھوتے نمبرپر، پانچویں نمبر 26.5فیصد کے ساتھ ڈیرہ بگٹی کے اضلاع شامل ہیں۔ کم قد والے بچوں کی شرح میں بلوچستان میں پہلے نمبر ضلع قلات ہے جہاں یہ شرح 62.9فیصد ہے۔ دوسرے نمبر پر کچھی میں یہ شرح 61.6ہے۔ لورلائی 56.4فیصد کے ساتھ تیسرے، ژوب 56فیصد کے ساتھ چھوتے نمبر پر ہے اور خاران 55.7فیصد کے ساتھ بالترتیت پانچوں نمبر پر ہے۔ خوراک کی کمی کے باعث عمر کے لحاظ سے کم وزن کا سامنا کرنے والے بچوں کی شرح میں بالترتیب خاران اور کچھی کو پہلا نمبر حاصل ہے ان دونوں اضلاع میں یہ سطح 57.4ہے۔ جعفراباد49فیصد دوسرے نمبر پر، قلات 47.2 کے ساتھ تیسرے نمبر پر جبکہ چھوتے نمبر پر جھل مگسی 46.7فیصد ہے اور پانچویں نمبر پر صحبت پور 41.9فیصد کے ساتھ ہے۔
ماؤں کے دودھ پلانے کے عمل کو اگر دیکھا جائے تو اس میں چھ ماہ تک دودھ پلانے والی ماؤں کی شرع اوسطاً43.9فیصد ہے جن میں شہری علاقوں میں یہ تعداد 36.8اور دیہی علاقوں میں 46.2ہے۔ جبکہ ایک سال تک یہ شرح اوسطاً 69.5فیصد ہے جن میں 81.5فیصد شہری علاقے اور 64.3فیصد دیہی علاقے شامل ہے۔ اسی طرح 2 سال کی عمر تک بچوں کو دودھ پلانے والی ماؤں کی شرح اوسطاً 57.3فیصد ہے جن میں 54.5فیصد شہری اور 58.2فیصد دیہی علاقے شامل ہیں۔ بلوچستان میں 61.1فیصد مائیں پہلے گھنٹے میں پیدائش کے بعد پہلے گھنٹے میں بچے کو دودھ پلاتی ہے۔ یہ سطح شہری علاقوں میں 60.9اور دیہی علاقوں میں 61.2ہے۔73.7فیصد نو عمر ماؤں کو خون کی کمی کا سامنا ہے۔
ضلع کچھی کے علاقے گوٹھ غلام حیدر میں راجی رضا کار تنظیم اور بریسٹ فیڈنگ انٹرنیشنل کیجانب سے پہلا نیوچرنگ کیئر ہٹ بنایا گیا جس کا مقصد وہاں بچوں کی نشوونماء اور انہیں ماں کے دودھ کی اہمیت کے بارے میں والدین کو آگاہی فراہم کرنا ہے۔ راجی رضاکار کے سربراہ ڈاکٹر امداد بلوچ کا کہنا ہے کہ انہیں اس پروگرام کا خیال سیلاب کے بعد پیدا ہونیوالی صورتحال کے بعد آیا کیوں کہ اس ضلع میں بچوں کے نیوٹریشن کیسز میں مزید اضافہ ہوا تھا۔ سیلاب کے بعد راجی رضاکار تنظیم کے رضاکاروں نے مختلف علاقوں کا گھر گھر سروے کیا اور صورتحال کا جائزہ لیا۔ ڈاکٹر امداد نے بتایا کہ گذشتہ سال اگست میں آنیوالے سیلاب کے بعد پیدا ہونیوالی صورتحال سے بلوچستان میں نیوٹریشن کیسز میں 30فیصد تک مزید اضافہ ہوا ہے۔ جس سے یہاں صورتحال مزید مخدوش ہوئی ہے۔ جبکہ بریسٹ فیدنگ انٹرنیشنل کی نمائندہ ڈاکٹر میگ ڈلینا وولیری کا کہنا ہے کہ ماں اور بچے کی صحت کا یہ مرکز اپنی نوعیت کا پہلا مرکز ہے۔ جسے ایمرجنسی کی بنیادوں پر بنایا گیا۔ یہاں کی صورتحال بہت ابتر ہے۔ بچوں میں نیوٹریشن کے مسائل بہت ہے جس سے ان کی موت بھی واقع ہوتی ہے۔ یہ صورتحال دیکھنا میرے لیے بہت دلخراش تھا۔ اس پر قابو پایا جاسکتا ہے لیکن اس کیلئے لازمی ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو صرف اپنا دودھ دے۔ڈاکٹر میگ ڈلینا وولیری کا کہنا تھا کہ یہاں ان بچوں میں نیوٹریشن کے ایشوز بہت زیادہ ہے جن کو فارمولا ملک یا دوسری متبادل غذائیں دی جاتی ہے۔ ان بچوں کی بازؤں کی سائز (مخصوص ریبن کے ذریعے)اب بھی سرخ رنگ میں ہے جوکہ بچے کی صحت کیلئے خطرے کی نشانی ہے۔ اس مقصد کیلئے ہمارے ادارے نے بلوچستان میں بچوں کی صحت کو محفوظ بنانے کیلئے کام کررہے ہیں۔
سمیع زرکون بلوچستان کے سماجی کارکن اور نوٹریشن کے ماہر ہے جنہوں نے بچوں کی خوراک اور تحفظ پر اپنی گراں قدر خدمات انجام دی ہے ان کے مطابق خوراک کے عالمی پیمانے کے حساب سے پاکستان کا شمار دنیا کے ان 50 ممالک میں ہے جو شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ 2018 کے قومی نیوٹریشن سروے کے مطابق بلوچستان کی 49.3 فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ نیشنل نیوٹریشن سروے کے مطابق صوبے میں پانچ سال تک کے 18.9 فیصد بچے شدید ترین غذائی قلت کا شکار ہیں اور 46.7 بچوں کا قدو وزن اپنی عمر کے مطابق کم ہے، صوبے میں 48.5 فیصد بچوں میں خون کی کمی ہے، 40.6 فیصد بچوں میں وٹامن اے کی کمی ہے۔ اور موجودہ بدترین سیلاب نے حالات اور بھی خراب کردی ہے۔ مختلف علاقوں میں خوراک کی کمی کیسز بڑھ رہے ہیں۔ بھوک و غذائی عدم تحفظ کا یہ پیمانہ بہت خطرناک ہے جو نہ صرف جسمانی کمزور نسل پیدا کررہا ہے بلکہ غذائی قلت کے شکار انسان کی ذہنی صلاحیتں نارمل انسان کی نسبت کم ہوتی ہے۔غذائی قلت کے شکار بچے،عام بچوں کی نسبت ہمیشہ بیماری پیدا کرنے جراثیموں کے لئے آسان ہدف ہوتے ہیں، جس کی سبب انکی شرح اموات زیادہ ہوتی ہیں۔ خوراک کا تحفظ غربت ختم کرنے کی جدوجہد کا بنیادی اور لازمی جزو ہے اور یہ براہ راست آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔
الشفا فاونڈیشن کے ضلعی کوارڈی نیٹر صدام بینظیر نشونماء پروگرام کے لیے نصیراباد کے کوارڈی نیٹر کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ صدام کے مطابق وہ نصیراباد کے ان علاقوں میں سرگرم ہے جہاں بچوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔ اس پروگرام کو چلانے میں یو این ورلڈ فوڈ پروگرام کا تعاؤن حاصل ہے جس کا مقصد صوبے بلخصوص وہ علاقے جہاں بچوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے وہاں پر ان بچوں کی نشونماء کا خیال اور انہیں اور ان کی ماؤں کی بروقت خوراک کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔ صدام کے یہاں اکتوبر سے ابھی 1300لوگوں کو ڈیرہ مراد جمالی میں رجسٹرڈ کرچکے ہیں جن 300بچے اور باقی خواتین حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین ہے۔ جنہیں ویکسی نیشن اور نادرا رجسٹریشن کے عمل کے بعد رجسٹرڈ کئے ہیں۔ تاکہ ان بچوں کی جنہیں خوراک کی کمی کا سامنا ہے اور ان حاملہ دودھ پلانے والی خواتین کی بہترین نشوونماء کو یقینی بنایاجاسکے۔ ان کا حدف 21000ہزار لوگوں تک رسائی حاصل کرنا ہے جن کو متعلقہ خوراک دینا ہے۔ تاکہ خواتین کودودھ پلانے اور بچوں کے متبادل غذا دینے کی نوبت نہ ہو۔ حملہ کے دوران اور پیدائش سے 18ماہ تک بچے کے قد اور نوٹریشن کے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
سمیع زرکون کے مطابق جب غذائیت بخش محفوظ اور متنوع خوراک ایک فرد اور خاندان کو میسر نہ ہو تو اس کو خوراک کا عدم تحفظ گردانہ جاتا ہے۔خوراک کی عدم تحفظ سے متاثرہ بڑھوتری اور خوراک کے ضروری عناصر کی کمی پیدا ہوتی ہے.غذائی معلومات اور اچھی عادت کو فروغ دے کے غذائی عدم تحفظ پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے جامع اور موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے کی شدت کا احساس کرتے ہوئے حکومت بلوچستان نے 2018 میں صوبے میں نیوٹریشن ایمرجنسی نافذ العمل کی ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ حکومت بلوچستان اب تک اس حوالے سے کوئی عملی اقدام نہیں دکھا سکی۔جس کی واضح مثال مالی سال 21-22 میں اس حوالے سے کوئی سرکاری فنڈ مختص نہیں کیا گیا۔ ضرورت امر کی ہے کہ حکومت اس مسلے سے نمٹنے کے لئے اس کو مزید سنجیدہ لے اور غذائی قلت سے نمٹنے کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کرے تاکہ ہماری آنی والی نسل جسمانی و ذہنی طور پر صحت مند ہو۔
بریسٹ فیڈنگ انٹرنیشنل کی ڈاکٹر میگ ڈلینا وولیری نے کوئٹہ انڈکس کو بتایا کہ ہم نے پاکستان کی سطح پر پہلا ایسا نیوچرنگ کیئر ہٹ کا قیام عمل میں لایا جو بچوں کی صحت میں بہترین کردار ادا کرسکے۔ میری تجویز ہے کہ بچے کو صرف اور صرف ماں کا دودھ دیا جائے جوکہ بچوں کیلئے صرف غذا ہی نہیں بلکہ تحفظ کیلئے بھی کار آمد ہے۔ یہ کام صرف ماؤں کا نہیں معاشرے کے تمام افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں میں شعور بیدار کرے اور بچوں کو متبادل غذاؤں سے بچایا جائے۔ مائیں 6ماہ تک بچوں کو اپنی دودھ کے علاوہ کوئی دوسری غذا فراہم نہ کرے۔ پاکستان بہترین پھل پیدا کرنیوالا ملک ہے اس لیے یہاں کے ماؤں کو پھلوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہیے۔
راجی رضا کار کے سربراہ ڈاکٹر امداد بلوچ نے کہا کہ راجی رضاکار تنظیم کیجانب سے قائم کردہ نیوچرنگ ہٹ میں بچوں کی صحت کے ساتھ ساتھ ماؤں کی صحت پر بھی کام کیا جاتا ہے۔ اس صحت مرکز کا بنیادی مقصد لوگوں میں ماں کے دودھ کے متبادل غذاؤں کے استعمال کی روک تھام سے متعلق آگاہی پیدا کرنا ہے۔ تنظیم کے سربراہ کے مطابق کچھی کے گوٹھ غلام حیدر میں زیادہ تر بچوں کو بوتل فیڈکرایا جاتا تھا لیکن اب یہاں پر بیشتر لوگوں نے بوتل کا استعمال چھوڑ دیا ہے جوکہ خوش آئیند ہے۔ راجی رضاکار نے بریسٹ فیڈنگ انٹرنیشنل کے ساتھ ملکر سیلاب متاثرہ علاقے کچھی میں علاقہ مکینوں کی مدد سے ماں اور بچے کی صحت کا مرکز قائم کیا ہے۔ اس مرکز کی تعمیر میں گرمیوں کے موسم کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ اسے خام مال سے تیار کیا گیا ہے تاکہ گرمیوں میں اس مرکز کا استعمال ممکن ہو۔ اس مرکز کے بنانے میں کمیونٹی کیجانب سے مفت لیبر فراہم کرنا خوش آئند اقدام ہے۔ اس صورتحال کو قابو کرنے میں سب اہم کردار والدین کا ہے جو اپنے بچوں کو فارمولا ملک اور دوسری متبادل غذاؤں سے دور رکھے۔ جو نہ صرف بچے کیلئے بہترین خوراک ہے بلکہ یہ بچے کی صحت کیلئے بھی مفید ہے۔
بلوچستان میں خواتین میں شیر خوار نوزائیدہ بچوں کو ماں کا دودھ پلانے کی اہمیت اور افادیت کے ضمن میں بلوچستان اسمبلی نے غذائیت کے تحفظ کا بل بھی پاس کیا ہے جسے غذائیت کے تحفظ و فروغ کا ایکٹ 2013 کہا جاسکتا ہے۔ ا س کا اطلاق قبائلی علاقوں کے سوا تمام بلوچستان پر ہوا اور فوری طورپر نافذالعمل ہے، جس کا مقصد خواتین میں بچوں کی نشوونما میں غذاء کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے اور ماں کے دودھ کے متعلق آگاہ کیا جائے کہ ماں کا دودھ ان کے بچے کے لیے بہترین غذا ے اور اسہال اور دیگر امراض کی روک تھام میں مدد کرتا ہے، اس چیز کا بھی خیال رکھا جائے گا کہ بچوں کی غذائیت کے لیے تیار کی گئی تمام مصنوعات معیار کے مطابق ہوں گے۔ اس قانونی ایکٹ میں خشک دودھ اور ماں کے دودھ کے متبادل غذا پر قانوناً پابندیلگائی جاچکی ہے، دودھ بنانے والی کمپنیاں اشہارات میں غلط بیانی سے کام لیتے ہیں لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے مختلف قسم کے اچھے مشورے دیتے ہیں، اشتہارات میں اس قسم کے گرم خبروں کے ذریعے والدین بچوں کوبہتر صحت کی خاطر دودھ اور دیگر غذائیں دینا شروع کردیتے ہیں۔