کوئٹہ
پارلیمانی سیکرٹری وومن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ ماہ جبین شیران اورپارلیمانی سیکرٹری قانون و پارلیمانی امور سائنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور چیئرپرسن ویمن پارلمینٹرین کاکس ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی نے کہا ہے کہ اسوقت بلوچستان کی بیس خواتین انٹرنیشنل ای کامرس سے وابستہ ہیں جبکہ ڈیڑھ سو سے زائد بچیوں کو ای کامرس کی تربیت فراہم کی جاررہی ہے سوشل میڈیا کرائم سے متعلق وفاقی وزارت قانون کو سفارشات کی ترسیل کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر ضروری قوانین کی تشکیل پر کام جاری ہے
ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو یہاں نیشنل کمیشن آن اسٹیٹس آف وویمن پاکستان ، یو این ڈی پی ، یو این ایف پی اے ، یو این ویمن اور جاز کے اشتراک سے منعقدہ ڈیجٹلائزیشن کے عمل میں خواتین کے کردار سے متعلق مشاورتی نشست سے بحیثیت مہمان خاص خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر نیشنل کمیشن آن اسٹیٹس آف وویمن پاکستان کی چیئرپرسن نیلوفر بختیار ، بلوچستان کی چیئرپرسن فوزیہ شاہین ، رکن قومی اسمبلی منورہ بلوچ، وزیر اعلی بلوچستان کی کوآرڈینٹر شانیہ خان ، زلیخہ مندوخیل اور یو این ڈی پی کی ڈپٹی ریزیڈنٹ ہیڈ عمارہ درانی بھی موجود تھیں ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی نے کہا کہ بلوچستان میں خواتین اور نوجوانوں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی سے روشناس کرانے کے لئے محکمہ آئی ٹی مختلف شعبوں میں مفت تربیت فراہم کررہا ہے جبکہ سرکاری اداروں میں ڈیجیٹلائزیشن کے لئے مقامی سطح پر مختلف ایپس بھی بنائی گئی ہیں
پارلیمانی سیکرٹری وومن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ و ماحولیاتی تبدیلی ماہ جبیں شیران نے کہا کہ بارکھان واقعہ طرز پر میڈیا اگر ہر مسئلے کی کوریج کرتی تو آج حالات مختلف ہوتے جب سے وومن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کا چارج لیا ہے کوشش ہے کہ اپنی بچیوں اور خواتین کو انٹرنیٹ اور ڈیجیٹلائزیشن کی طرف لائیں وومن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے مختلف تنظیموں کے ساتھ خواتین کیلئے ای کامرس پروگرام شروع کیا ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال کیلئے خواتین کی تربیت کی ضرورت ہے جب تک برابری کی بنیاد پر مواقع فراہم نہیں ہوں گے ترقی نہ ہونے کے برابر ہوگی، وومن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کو خواتین کو امپاورمنٹ کی طرف لے جانے کیلئے فنڈنگ کی ضرورت ہے۔
اس موقع پر نینشل کمیشن آن اسٹیٹس آف وویمن پاکستان کی چیئرپرسن نیلوفر بختیار نے کہا کہ بلوچستان سمیت چاروں صوبوں میں کمیشن آن اسٹیٹس آف وویمن کی تشکیل مکمل ہوچکی ہے جبکہ گلگت بلتستان میں کمیشن کے قیام کے لیے جدوجہد کررہے ہیں پورے ملک میں خواتین اسٹیٹس کمیشنز کے قیام سے پاکستان میں خواتین کی معاشی اقتصادی اور معاشرتی حیثیت کو صنفی امتیاز سے مبرا کرکے مساواتی عمل کو یقینی بنایا جائے گا نیلوفر بختیار نے کہا کہ ڈیجیٹل دور میں جدید ٹیکنالوجی میں دنیا سمٹ گئی ہے گھر میں بیٹھ کر دنیا جہاں کی کوئی بھی خبر دیکھ اور سن سکتی ہے، ٹیکنالوجی کے مثبت اثرات کے ساتھ ساتھ اس کی منفی اثرات بھی ہیں خاندانی زندگی متاثر بچے سارے دن موبائل فون استعمال کرنے میں مصروف ہیں۔ ان برائیوں کی روک تھام کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے اگر کسی بچی کو زیور کا سیٹ نہ دیں لیکن ایک لیپ ٹاپ ضرور دیں تاکہ وہ اپنی انکم کما سکیں۔ پاکستان میں آج بھی لیبر مارکیٹ میں خواتین 20 اور مرد 80 فیصد ہیں پاکستان کی ترقی کیلئے 50 فیصد آبادی کو آگے بڑھانا ہیں۔