تحریر۔۔ سید ولی آغا
بلوچستان میں نجی تعلیمی ادارے 1962کے آرڈیننس 9کے تحت ڈائریکٹریٹ آف ایجوکیشن سے رجسٹرڈہوتے تھے ،رجسٹریشن کا کوئی باقاعدہ طریقہ کار نہیں تھا اور نہ ہی نجی تعلیمی اداروں کا باقاعدگی سے معائنہ ہوتا تھا،اکثرتعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کا فقدان تھا اور اداروں کے سربراہان اپنی مرضی سے فیس وغیر بڑھاتے تھے ،قانون نہ ہونے کی وجہ اکثروالدین پریشان رہتے تھے انکی درخواست سننے کے لئے کوئی ادارہ ذمہ داری نہیں لیتا تھا حکومت کے پاس بھی نجی اداروں کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا سابقہ حکومت نے نجی تعلیمی اداروں کو لگام دینے اورقانون کے دائرے میں لانے کے لئے ایک باقاعدہ ادارے کے قیام کو عمل میں لانے کے لئے 2014ء میں محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام کی کافی تگ ودود کے بعد متفقہ فیصلہ کیا کہ صوبے میں نجی تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن اور ریگولیشن کے لئے ایک باقاعدہ ادارے کا قیام عمل میں لایاجائے گا اوریہ فیصلہ کیا کہ بلوچستان ایجوکیشن فائونڈیشن (بی ای ایف)1994ء سے نجی اداروںکو مالی امداد دے رہا تھا
بی ای ایف کا قیام ستمبر1994کو بلوچستان اسمبلی کے ایکٹ نمبر 7کے تحت ایک خودمختارادارے کے طور پر عمل میں لایا گیا ، جو کہ بورڈ آف گورنر کے تحت کام کرتا رہا جس کے چیئرمین گورنر بلوچستان تھے ، اس کے علاوہ چیف سیکرٹری بلوچستان ،سیکرٹری تعلیم ،ایڈیشنل سیکرٹری تعلیم ،سیکرٹری خزانہ ، منیجنگ ڈائریکٹربی ای ایف اور 11پرائیویٹ نمائندے اس باڈی کے ارکان تھے ،11ارکان میں نجی سکولوں کا نمائندہ بھی میں شامل تھا ، بلوچستان ایجوکیشن فائونڈیشن کا قیام نجی سکولوں کی ہرقسم کی مدد کرنے کے لئے عمل میں لایا گیا تھا
فائونڈیشن کے قیام سے لے کر آج تک ہرسال خطیر رقم تعلیمی اداروں کو لیبارٹری کے قیام ،کمپیوٹرز کی خریدار ی کے لئے مہیاکی جاتی تھی ، اس کے علاوہ ورلڈ بینک کے تعاون سے بلوچستان ایجوکیشن فائونڈیشن نے 2004سے 2009تک 197نجی سکول نجی شعبے کے تعاون سے کھولے جس میں تقریبا 23ہزاربچوں کو داخل کرایا گیا بعدمیں یہ سکولز مکمل طور پر نجی شعبے کے حوالے کردئیے گئے ،بلوچستان پرائیوٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ ریگولیشن اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (بیپر ا BPEIRRA)صوبائی حکومت نے کافی کوششوں کے بعد اکتوبر 2015میں اسمبلی اجلاس میں اتفاق رائے سے منظورکرایا اوربلوچستان ایجوکیشن فائونڈیشن کو اس کی سابقہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے نجی تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن اورریگولیشن کا اختیارسونپ دیا گیا ،بلوچستان کو یہ اعزازحاصل ہے کہ ملک کے دیگرصوبوں سے پہلے اس قانون کوبناکر نافذکردیا
اس کے بعدملک کے دیگرصوبوں میں اس طرزکا قانون کو نافذالعمل ہوا جو بہت کامیاب رہا،اس قانون کی شق نمبر 9کے تحت سٹیرنگ کمیٹی بنائی گئی جس کے چیئرمین چیف سیکرٹری بلوچستان ہیں ،اوراسکے ارکان میں سیکرٹری کالجز،سیکرٹری سکولز ،سیکرٹری خزانہ ،ایم ڈی بلوچستان ایجوکیشنل فائونڈیشن اورتین پرائیویٹ نمائندے شامل ہیں،اس قانون کی شق نمبر 12کے مطابق جوتعلیمی ادارے پہلے سے رجسٹرڈتھے یا وہ ادارے جو ابھی رجسٹرڈہونے تھے انکو نوے دن کے اندر دوبارہ رجسٹریشن کرانے کے لئے کہا گیا ،اور اگرکسی سکول کی ایک سے زیادہ شاخیں ہیں تو ہر شاخ کو علیحدہ علیحدہ رجسٹرڈکرانا پڑے گا،کوئی بھی سکول (بیپر ا BPEIRRA)کی مرضی کے بغیر فیس نہیں بڑھاسکتا اس میں تعلیمی اداروں کو لگا م دینے کے لئے اچھی شرائط رکھی ہیں اس ادارے کے قیام سے لے کرآج تک صوبے بھر میں 600سے زائد سکولوں میں رجسٹریشن کے لئے درخواستیں دی ہیں اور تقریبا 550تک تعلیمی اداروں کو این اوسی اوررجسٹریشن جاری ہوچکی ہے
ان سکولوں میں پوش علاقوں میں شامل کچھ بڑے سکول بھی ہیں ،اسکے علاوہ ایف سی کے زیراہتمام چلنے والے تعلیمی اداروں نے بھی محکمہ ہذا سے رجسٹریشن کرائی ہے ،کچھ تعلیم دشمن اداروں کے سربراہان اس قانون کی منظوری کے خلاف باقاعدہ محافظ بنے ہوئے ہیں اور اس قانون کی منظور ی کے خلاف عدالت عالیہ میں درخواست دائرکررکھی ہے اورکوشش کررہے ہیں کہ اس قانون کو منسوخ کراکے اپنی اجارہ داری قائم کریں ،اس گھنائونے عمل میں محکمہ تعلیم کے کچھ سازشی عناصربھی انکے ساتھ شامل ہیں جن کے اپنے نجی سکول ہیں ، حالانکہ ادارے نے پوش علاقوں میں قائم کچھ بڑے سکولوں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے فیسوں کو چالیس سے 50فیصد تک کم کرایا جس کو سول سوسائٹی اوروالدین نے بہت سراہا اس سلسلے میں والدین نے بلوچستان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ نجی اداروں کے حوالے سے بنائے گئے اس قانون کو تبدیل کیا جائے اور نہ ہی منسوخ کیا جائے ،اگرنجی سکولو ں کی تنظیمیں اس قانون کی منسوخ یا قانون کی تبدیلی میں کامیاب ہوگئی تو نجی تعلیمی اداروں سے عام لوگوں کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا ،نجی تعلیمی ادارے من مانی فیس وصول کرنے اورساتھ ساتھ جونصاب اوریونیفارم فروخت کرنے میں ملوث سکول مالکان جوتعلیم کوکاروبارسمجھ کر کروڑوں روپے غریب عوام کی جیبوں سے ناجائز طریقے سے نکال رہے ہیں ان کے عزائم کو فروغ ملے گا، نجی سکولوں کے مالکان کو من مانیاں کرنے اور بھاری بھرکم فیس وصول کرنے سے روکنے کے لئے بلوچستان ایجوکیشن فائونڈیشن کے موجودہ قانون کا برقراررہنا اور اس پرسختی سے عملدرآمدکرنا لازمی اورعوام کے بہترین مفاد میں ہے