رپورٹ.. شاد پندرانی
کتاب کی اہمیت وافادیت سے کوئی انکار ممکن نہیں ایک کتاب قوموں کی ترقی کا آئینہ دار ہوتی ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ عصر حاضرمیں انٹرنیٹ کی دنیا نے ہمیں مطالعہ کتب سے دور کردیا ہے لیکن پھربھی نیٹ کی دنیا سے کہیں زیادہ اہمیت کتاب کی دنیا کو حاصل ہے.
علم وادب کی ترقی و ترویج کے لیئے کئی ادبی تنظیمیں اپنی مدد آپ کے تحت ادبی خدمات سر انجام دے رہی ہیں.ان میں ایک ادبی تنظیم ملی ادبی فاؤنڈیشن پاکستان بھی شامل ہےجو گزشتہ دو سالوں سے فروغ علم وادب کے لیئے کوشاں ہے.ملی ادبی فاؤنڈیشن پاکستان کے پلیٹ فارم سے قلمکاروں کی حوصلہ افزائی اور انکی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں خراج تحسین پیش کرنے مختلف ادبی تقاریب کا اہتمام ہو چکا ہے اسی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ملی ادبی فاؤنڈیشن کے زیراہتمام پاکستان کے نامور ادیب ایوارڈ یافتہ افسانہ نگار ماہنامہ سچی کہانیاں کراچی کے ایڈیٹر محمد سلیم اختر کی افسانوں پر مشتمل کتاب "یہ دیا بجھنے نہ پائے” کی تقریب رونمائی کا اہتمام الفاروق پبلک سکول ڈیرہ اللہ یار کے آڈیٹوریم میں منعقد کیا گیا.
تقریب کا آغازتلاوت کلام پاک سے کیا گیا جسکی سعادت فاروق احمد نے حاصل کی نظامت کے فرائض نوجوان قلمکار علی احمد ابڑو نے انجام دیئے.صدارت نوجوان شاعر ملی ادبی فاؤنڈیشن پاکستان کے صدر شمس مہجور نے کی اس پروقار تقریب کے مہمان خاص سیدذاکرعلی شاہ اور اعزازی مہمان محمد حنیف بادل تھے. کتاب کی رونمائی مایہ ناز ماہر تعلیم پروفیسر محمد یونس ناز نے کی.
محمد سلیم اختر کی کتاب یہ دیا بجھنے نہ پائے پرملی ادبی فاؤنڈیشن پاکستان کے چیئرمین محمد اسلم آزاد نے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ محمد سلیم اختر کی افسانوں پر مشتمل کتاب کا شمار عصرحاضر کے بہترین کتابوں میں ہوتا ہے اس مجموعے کو افسانوی صنف کے علاوہ بھی ادبی حلقوں میں پزیرائی ملنے کے ساتھ اس کتاب میں محمد سلیم اختر نے اس معاشرے کی مختلف پہلوؤں کی نمائندگی بھی کی ہے ان کے افسانوں میں زندگی کے نشیب وفراز کا کا ذکر بھی ملتا ہے.محمد اسلم آزاد نے کہا کہ اس کتاب کہ انفرادیت یہ ہے کہ اس میں انسانی زندگی پر اثرانداز ہونے والی ہر موضوع پر قلم اٹھایا گیا ہے جو محمد سلیم اختر کی تخلیقی حسن کو مزید خوبصورت بنانےمیں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور انکے افسانوں میں حقائق اور سچ بیانی کا عنصر بھی واضح نظر آتاہے
تقریب میں ملی ادبی فاؤنڈیشن پاکستان کے وائس چیئرمین ساحل ابڑو نے محمد سلیم اختر کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ محمد سلیم اختر کا شمار عصر حاضر کے ان افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے قلم کے ذریعے اپنی خداداد تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا.اس کتاب میں شامل تمام افسانے موجودہ دور کی عکاسی کرتے ہیں ان کے تخیلاتی حسن نے افسانہ نگاری کو اک نیا رخ دیا ہے جسے ادبی دنیا میں ایک منفرد اور ممتاز مقام حاصل ہواہے انہوں نے کہا کہ محمد سلیم اختر کی ادبی سفر بہت طویل ہونے کی وجہ سے انکی ادبی زندگی کا احاطہ کرنا بہت مشکل ہے.
ساحل ابڑو نےمزید کہا کہ محمد سلیم اختر کی کتاب میں شامل تمام افسانوں میں معاشرتی مسائل,احساس ذمہ داری اور شعور آگہی کے تمام رنگ شامل ہیں.
پروفیسر وحید کاکڑ نے اپنے ذریں خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اس دور میں کتاب تحریر کرنا بہت مشکل کام ہےمگر محمد سلیم اختر کی فن قلمکاری اور ادبی خلوص کو دیکھ کر انقلاب کی ایک نوید نظر آتا ہے.محمد سلیم اختر کی تحریر کردہ افسانوں پر مشتمل مجموعہ انکی تخلیقی صلاحیتوں کا بہترین شہکار ہے.
اس پروقار تقریب کے مہمان خاص سید ذاکر علی شاہ اور اعزازی مہمان محمد حنیف بادل نے کتاب کی اہمیت وافادیت کے بارے میں سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قوموں کی ترقی کا راز کتابوں میں چھپا ہے اس لیئے نوجوانوں کو چائیے کہ انٹر نیٹ کے بجائے کتابوں کا مطالعہ کریں.
انہوں نے کہا کہ محمد سلیم اختر کا افسانوی مجموعہ "یہ دیا بجھنے نہ پائے” میں شامل تمام افسانے اہمیت کے حامل ہیں ان میں زندگی کے تلخ وشیریں,معاشرتی کرب کا اظہار اور لطیف مواد شامل ہے جو محمد سلیم اختر کی علمی,ادبی اور انکی پختہ کاری کا ترجمان ہے.
اسکے علاوہ تقریب سے دیگرادباءاکرام جن میں عابد علی عابد,ایم اے شکیل,الہی بخش,حیدر تبسم,محمد اسحاق بلوچ,شاہدعلی شاہد,محمد زمان جلبانی ,ڈاکٹراکبرخان,عبدالرؤف عابداور ڈاکٹر شہزادخان نے محمد سلیم اخترکی کتاب پر روشنی ڈال کر سامعین کو مستفید کیا.