کوئٹہ:دین محمد وطن پال سے
سول سوسائٹی کے نمائندوں نے کہا ہے کہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے کئے جانیوالے اخراجات سے متعلق معلومات تک رسائی عوام کا بنیادی حق ہے۔ حکومت کو معلومات تک رسائی کی موثر قانون سازی کرنی چاہیے۔ تاکہ شفافیت کے نظام کو پروان چرھایا جاسکے۔ معلومات تک رسائی کا قانون فریڈم انفارمیشن ایکٹ 2005 ء غیر موثر ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ دوسرے صوبوں کے طرز پر رائٹس ٹو انفارمیشن کا بل فوری طور پر پاس کراکر قانون سازی کی جائے۔
ایڈ بلوچستان کے زیر اہتمام مقامی ہوٹل میں رائٹس ٹو انفارمیشن کے قانون سے متعلق منعقدہ مشاورتی ورکشاپ سے تنظیم کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عادل جہانگیر، جبار، ناصرہ تحسین، ستار بلوچ اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پبلک سیکٹر کے معلومات تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ رائٹس ٹو انفارمیشن کا قانون نظام میں شفافیت کو بھی فروغ دیتا ہے۔ حکومت بلوچستان کا بجٹ کو آن لائن کردینا قابل تحسین اقدام ہے۔ بلوچستان میں بجٹ کا دو سالوں سے وائٹ پیپر جاری نہیں کیا ہے۔ اس سال صرف ایک پیج کا وائٹ پیپر جاری کیا ہے تعلیم اور صحت بنیادی محکمے ہیں ان کی کارکردگی کے بارے معلومات کبھی فراہم نہیں کی جاتی۔
2005ء میں بلوچستان فریڈم انفارمیشن ایکٹ پاس کیا۔ اس قانون کےتحت کسی بھی شخص بہت محدود معلومات تک رسائی حاصل ہے۔ 2005ء ایکٹ میں خامیاں موجود ہے۔ خیبر پشتونخوا کا نیا قانون بہترین ہے۔ باقی صوبوں میں رائٹس ٹو انفارمیشن سے متعلق دینے جانیوالے معلومات کے بارے میں سرکاری محکموں میں بورڈ آویزاں کئے گئے ہیں۔ سرکاری اداروں کی جانب سے غلط معلومات مہیا کرنے پر بھی سزا دینی چاہیے۔ قانون سے متعلق عوام کو آگاہی دی جائے ۔ مقامی زبان میں آگاہی کے پمفلٹ تقسیم کئے جائیں ۔ قانون کی افادیت کی تشہیر کیلئے ریڈیو اور میڈیا کے دیگر ذرائع استعمال میں لائے جائیں۔
ریاست عوام سے اور عوام ریاست سے جڑے ہوئے ہیں۔ صوبائی اسمبلی میں بیٹھے عوامی نمائندوں کو بھی رائٹس ٹو انفارمیشن ایکٹ بارے میں معلوم نہیں ہوتا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ اس بل کو آنیوالے حکومت اور سٹیک ہولڈرز تک پہنچا کر اسے پاس کرایا جائے۔ نئی حکومت کے آنے تک اس بل پر مزید کام کیا جائے۔ تاکہ موثر طور پر قانون کی جاسکے۔ پولیس، لیویز جیسے اداروں سے معلومات حاصل نہیں کیا جاسکتا ۔ انصاف تک رسائی بھی معلومات کی رسائی سے ممکن ہے۔ لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ پولیس ایف آئی آر میں کیا لکھ رہے ہیں۔ ایف آئی آر میں درج معلومات تک دسترس دی نہیں جاتی جبکہ لوگوں سے سادہ کاغذ پر بھی دستخظ دیئے جاتے ہیں۔
ہم ابھی بھی پرانے طریقے استعمال کررہے ہیں۔ ایک موثر او رمضبوط میکنیزم بنانے کی ضرورت ہے۔ صرف پبلک نہیں بلکہ پرائیوٹ سیکٹر (نجی ادارے)سے بھی معلومات کی حصول کا بھی میکنزم بنایا جایا۔ کسی بھی سرکاری محکمے کی جانب سے سالانہ کارکردگی رپورٹ شائع نہیں کیا جاتا۔ جو قوانین پہلے سے موجود ہے اس پر عملدر آمد نہیں ہورہا تو نئے قوانین پر عملدرآمد سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ عوام کو ٹیکس کے پیسوں کے استعمال کا عوام کو پتہ ہونا چاہیے۔ صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں بپلک سیکٹر کے شعبوں کے معلومات تک رسائی ٹیکس دینے والے عوام کا حق ہے۔