بلوچستان میں تعلیم کی موجودہ صورتحال اور ماضی ہونیوالے اقدامات کے حوالے سے ہمارے نمائندے دین محمد وطن پال نے سابق وفاقی وزیر برائے تعلیم محترمہ زبیدہ جلال صاحبہ سے ایک انٹرویو کیا ہے جس میں بلوچستان کو درپیش مسائل، چیلنجز، تعلیمی پالیسی، نصاب اور تعلیمی معیار کے حوالے سے بات چیت کی گئی ہے ناظرین کے پیش نظر کرتے ہیں ۔
محترمہ زبیدہ جلال صاحبہ پارلیمانی سال 2002ء سے 2007ء تک قومی اسمبلی کی ممبر رہی اور اس دوران وہ بلوچستان سے پہلی خاتون تھی جو وفاقی وزیر برائے تعلیم بنی۔ محترمہ کے دور میں پورے ملک میں تعلیمی اصلاحات کے علاوہ چاروں صوبوں کے نصاب کا دوبارہ جائزہ لیا گیا اور اس میں ضرورت ہے مطابق ترامیم کی گئی لیکن بدقستمی سے محترمہ کے دور کے بعد بلوچستان میں تاحال نہ تو تعلیم کی بہتری کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات کئے گئے اور نہ ہی کوئی مربوط حکمت اور پالیسی تشکیل دی گئی اور نہ ہی نصاب کا دوباہ جائزہ لیا گیا ہے۔ تاہم موجودہ حکومت نے تعلیم کی بہتری کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے ہیں۔ (ادارہ)
وطن پال: تعلیم کے شعبے میں ہمیں اس وقت کس قسم کے مسائل یا چیلنجز کا سامنا ہے؟
زبیدہ جلال: اس وقت جب میں وزیر تعلیم تھی بھی یہی چیلنجز تھی جو آج ہے۔ ہمیں سہولیات کے فقدان کے چیلنجز کے علاوہ تعلیمی معیار جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان میں زیادہ تر مسائل بچیوں کے حوالے سے ہے کہ ان گھروں کے آس پاس سکول موجود ہے یا نہیں؟ اگرچہ پچھلے ادوار میں تعلیم وفاقی محکمہ تھی لیکن عملدر آمد کا کام صوبوں کا تھا۔وفاقی محکمہ کی ذمہ داریاں پالیسی، ریفامز ، بجٹ، جی ڈی پی اور صوبوں کو آیڈیشنل سپورٹ دینا تھا۔ ہم نے اس وقت 1998-2010 کی تعلیمی پالیسی کو تبدیل نہیں کیا اس میں ہم نے پالیسی پر عملدر آمد کرنے پر زور دیا اور جو خامیاں تھی ان کو دور کرنے کی کوشش کی۔ کوالٹی ایجوکیشن ٹیچرز اور ان کی تعلیم اور تربیت۔
وطن پال: ماضی کی نسبت تعلیم کی موجودہ صورتحال میں کیا تبدیلی آئی ہے؟
زبیدہ جلال: تبدیلی زیادہ نہیں آئی۔ جب ہم نے پالیسی بنائی تو اس ہم نے تمام صوبوں میں کمیٹیاں بنائی۔ پہلی بار پاکستان ہماری حکومت نے فاٹا میں محکمہ تعلیم کا ڈائریکٹریت بنایا۔ اس وقت صوبوں میں کچھ صوبے تیزی آگے نکلے لیکن بلوچستان بدقسمتی سے سب سے کم رفتار میں تھا۔ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد بلوچستان کے پاس ایک بہت ہی بڑ اموقع تھا کہ وہ اپنی ریفارمزیا پلان جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ابھی تک ہمارے ہاں 2006 کا نصاب چل رہاہے اس سے تبدیل نہیں کیا ہے۔

وطن پال: آپ محکمہ تعلیم کی وفاقی وزیر رہ چکی ہے اس وقت آپ کے محکمے نے کیا اقدامات کئے اور اب جو اقدامات کئے جارہے کیا آپ ان سے مطمعین ہے؟
زبیدہ جلال: جب ہم نے بین الاقوامی نصاب دیکھا تو ہم نے فیصلہ کیا ہر پانچ سال بھی نصاب میں تبدیلی لائی جائے گی اور یہ ہوا کہ 2006ء میں اسے قومی سطح پر نصاب کو ریویو کیا گیا لیکن بلوچستان میں ابھی تک اس کو دوبارہ ریویو نہیں کیا گیا ہے اور ابھی وہی پرانا نصاب کو چلارہے ہیں ۔ اب چونکہ 18ویں ترمیم کے بعد بلوچستان کو اپنی پالیسی بنانے اور نصاب میں تبدیلی کا اختیار حاصل بلوچستان میں اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور بلوچستان حکومت کو اس سلسلے میں توجہ دینی چاہیے۔ بلوچستان کو صرف نصاب میں تبدیلی کی ضرورت ہی نہیں بلکہ تعلیم تک لوگوں کی رسائی، اصلاحات اور اساتذہ کی تعلیم و تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے۔
وطن پال: تعلیمی اصلاحات کی کس حد تک ضرورت ہے؟
زبیدہ جلال: دس سال گذرنے کے بعد بھی بلوچستان نے نہ تو تعلیمی اصلاحات کی اور نہ ہی کوئی موثر تعلیمی پالیسی بنائی۔ بلوچستان حکومت کو چاہیے کہ قومی سطح پر جو قوانین، آرڈیننس، پلان اور جو پالیسیاں بنائی گئیں تھی اور دوبارہ دیکھ کر ان کی مدد سے قانونی ایکٹ بنائیں۔ 18ویں ترمیم کے 4سال گزر جانے کے باوجود بھی بلوچستان میں تعلیمی اصلاحات کی گئی اور نہ ہی ان پر عمل درآمد ہوا ہے۔
وطن پال: بلوچستان میں آوٹ آف سکول بچوں اور گھوسٹ اساتذہ کی صورتحال کو آپ کس نظر سے دیکھتی ہے؟
زبیدہ جلال: اگر بلوچستان کا موازنہ دوسرے صوبوں سے کیا جائے تو یہاں چیلنجز مختلف ہیںیہاں پر آ بادی کم اور دور دراز کے علاقوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ ان سارے علاقوں تک پہنچنا حکومت کی ذمہ داری ہے اس میں معذورت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بلوچستان حکومت کو ایک ڈبے سے نکل ہر حالت میں پالیسی اور پلان کو تشکیل دینا پڑے گا۔ لوگوں کی سکولوں تک رسائی اور خاص طور پر بچیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ بہت سارے علاقوں میں سکول بنائے گئے ہیں ۔ لیکن پھر بھی ہمیں اساتذہ کی غیر حاضری، مانیٹرنگ اور ریولیشن سسٹم کے فقدان جیسے چینلجز کا سامنے کررہے ہیں۔ مانیٹرنگ سسٹم کی جہاں تک بات بے شک وہ فتری کاروائی میں موجود ہے لیکن وہ گاؤں یا پھر ضلعی سطح پر نہ ہونے کے برابر ہے اور نہ ہی اس کی کوئی میکینزم موجود ہے۔

وطن پال: کیا بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ سے فرق پڑے گا؟
این ایف سی ایوارڈ کے بعد بلوچستان حکومت کے پاس جی ڈی پی کی مد میں بجٹ موجودہے جس کا 24% حصہ تعلیم کے لیے مختص کیا گیاہے ۔ لیکن اس میں پیراریٹیز کیا ہوں گے؟ سکولوں تک رسائی، کمروں کی صورتحال، تعلیمیمعیار اور یا پھر عمارتوں کی بناوٹ پر خرچ ہوئے ہیں یا ہوں گے؟یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ پیسے کہاں پر خرچ ہوئے ہیں؟ لیکن یہاں پر وہی بات حکومت بلوچستان اور محکمہ تعلیم اصلاحات اور جدید تقاضوں کے ضروریات کو دیکھتے ہوئے پالیسی یا پھر پلان تشکیل نہیں دے سکے ۔ اس میں ابھی تک حکومت ناکام ہے۔ جب تک حکومت اور محکمہ تعلیم خود بیٹھ کر پالیسی نہ بنائے اور پلان تشکیل نہ دے تب تک میں نہیں سمجھتی کہ کوئی فرق آئے گا۔
وطن پال: آپ عرصہ دراز سے تعلیم پر کام کررہی ہے آپ کے خیال میں بلوچستان میں سکولوں سے باہر بچوں کی بڑی تعداد کی وجوہات کیا ہے؟
زبیدہ جلالہ: وہ تصور کہ لوگ تعلیم حاصل کرنا نہیں چاہتے یا اپنے بچے سکول جانے روکتے ہیں وہ اب ختم ہوگیا ہے اب ہر شخص چاہتا ہے کہ ان کے بچے تعلیم حاصل کرے۔ حتیٰ کہ پہاڑوں پر رہنے والے بھی تعلیمی اور صحت کے سہولیات مانگتے ہیں۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کا بھی حصہ ہے۔ چیلنجز سے نمٹنا حکومت کا کام ہے ۔ سکولوں میں پرائمری سطح پر لڑکوں اور لڑکیوں کے الگ کلاسز کا تصور بھی ختم ہوتا جارہاہے۔ مرد اساتذہ کا بچیوں کے پرائمری سطح کے سکولوں میں پڑھانا پر پابندی کا تصور بھی کم ہوگیا ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے تعلیم حاصل کرے اس کے لیے اگر محلے کا مرد استاد بھی ہو ۔ لوگوں کے سوچ اب تبدیلی آرہی ہے۔
نوٹ یہ انٹرویو مزید جاری ہے دوسرا حصہ جلد یہاں پر دیکھا جاسکے گا۔ (شکریہ ادارہ)