پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینئر ڈپٹی چیرمین اور پشتون افغان قومی سیاسی تحریک کے عظیم رہنما 20 مئی 2017ء کو وفات پا گئے۔آپ 1937ء میں تاریخی وادی ژوب میں آباد پشتون افغان قبیلہ مندوخیل کے ایک گاؤں اومژہ مرسین زی میں محترم عبدالرحمن اور محترمہ دوتانئی کے گھر میں پیدا ہوئے۔
آپ ایک قوم دوست اور وطن دوست خاندان کے چشم و چراغ تھے۔آپ کے دادا ملا نور خان نے 1919ء میں انگریز استعمار کے خلاف افغانستان کی آزادی و استقلال کی جنگ میں ژوب کے محاز پر جنگ آزادی کے سالاروں ازمیر خان مندوخیل، مشو خان شیرانی اور شیرک عبداللہ زی کی قیادت میں سرباز سپاہی کی حیثیت سے حصہ لیا تھا۔آپ کا خاندان "گوہر کہول” گاوں کا ملک خاندان ہے اورآپ کے پردادا خاٹول کی مناسبت سے گاؤں کے ایک علاقے کا نام خاٹول کوٹ ہے۔ آپ کے خاندان کی سماجی حیثیت نہایت مستحکم لیکن معاشی حیثیت آبتر تھی۔ گاؤں کے دیہاتی ماحول میں نیم زرعی اور نیم بھیڑ پال معیشت پر خاندان کے گزر بسرکا انحصار تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کے والد نے تلاش معاش کے سلسلے میں اپنی زندگی کا قیمتی وقت ترکستان، کابل و زابل، سندھ و ہند اور بنگال کے سفروں میں گزارا تھا۔ اور سفر کے دوران کلکتہ میں بنگالی زبان بھی سیکھی تھی۔ جب ان کے والد نے ایک دن ژوب کے چھاؤنی میں ایک بنگالی فوجی آفیسر سے بنگالی زبان میں بات کی تو پھر وہ بنگالی آفیسر آ پ کے والد کا ایسا جگری دوست بنا کہ ان کی اصرار پرآپ کے والد نے بچوں کی تعلیم کیلیے اپنا گھر گاؤں سے ژوب شہر منتقل کر دیا۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ رحیم صاحب جیسے عظیم قومی رہنما کی تعلیم کا زریعہ ایک بنگالی فوجی آفیسر بنا۔آپ 1943ء میں ژوب ھائی سکول میں داخل ہوئے۔ یہاں سے میٹرک کیا اور 1953ء مین کوئٹہ کے سائنس کالج مین داخلہ لیا۔ اور یہاں سے بی اے کر کے 1963ء میں اسلامیہ کالج پشاور سے ایل ایل بی LLB کی ڈگری حاصل کرلی۔آپ انتہائی محنتی، زہین اور ہونہار طالبعلم تھے۔آپ نے بی اے تک کی تعلیمی اخراجات قابلیت کی سکالرشپ اور ٹیوشن سے اور کوئٹہ کے ریڈیو اسٹیشن میں پشتو نیوز کاسٹر بن کر پورہ کیے۔ اور قلعہ سیف اللہ اور اپوزئی کے مڈل سکول میں ہیڈماسٹر کی حیثیت سے ملازمت کر کے LLB کے تعلیمی اخراجات پورہ کیے۔ محترم رحیم صاحب کی طالب علمی کا دور پشتون افغان ملت کی بد ترین قومی محکومی اور سماجی تباہ حالی کا دور ہے۔ اور یہی باچا خان اور خان شہید عبدالصمد خان اچکزی کی قیادت میں جاری پشتون قومی سیاسی تحریک کی ناقابل بیان قربانیوں کا دور بھی ہے۔
آپ نے طالب علمی کے دوران قومی اور سماجی تباہ حالی کی اس ازیت ناک صورت حال کا ادراک کر لیا اور پشتون قومی سیاسی تحریک کا فعال رکن بنے۔ رحیم صاحب نے زمانہ طالب علمی میں کوئٹہ کے کالج میگزین بولان میں "پشتو اور آج کے پشتون” کے عنوان سے اور "اس تاریک سرزمین کی شخصیتیں” کے عنوان سے اور گلستان رسالہ میں ژوب کے عنوان سے جو مضامین لکھے ہیں اس سے بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ افغان وطن اور افغان ملت کی تاریخ، جغرافیہ، تہذیب و تمدن، زبان و ثقافت، ادب اور سیاست پر رحیم صاحب کا مطالعہ کتنا وسیع اور ہمہ گیر ہے۔ محکوم افغان وطن اور برصغیر ہند پر انگریز کے استعماری راج کے خاتمے کیلیے پشتون قومی سیاسی تحریک کے عظیم سالاروں باچا خان کے خدائی خدمتگار اور عبدلصمد خان اچکزئی کے انجمن وطن کی ناقابل بیان قربانیوں کے باوجود جب 1947ء میں انتقال اقتدار کے وقت محکوم افغان وطن کو آزاد اور خودمختیار بنانے کے بجائے پنجابی اور ہندوستانی مہاجر کی نئی استعماری ریاست پاکستان میں شامل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ تو نئی ریاست کے استعمار گروں نے حکمرانی کا آغاز 1948ء میں بابڑہ میں خدائی خدمتگار کارکنوں کی قتل عام اور قومی تحریک کے رہنماؤں باچا خان اور خان شہید عبدالصمد خان اور ان کے سینکڑوں ساتھیوں کے طویل قید و بند کے سزاؤں سے کیا۔
پھر سات سال تک آئین ساز اسمبلی کو آئین بنانے سے روک کر اس کے آئینی فارمولوں کو یکے بعد دیگرے مسترد کرکے 1954ء میں آئین ساز اسمبلی ہی توڑ دی۔
اس کی بعد وفاقی وحدتوں کے قومی وجود کا خاتمہ کر کے 1955ء مغربی پاکستان پر بدنام زمانہ ون یونٹ اور مشرقی پاکستان Parityکا استعماری نظام مسلط کیا۔
خان شہید نے ایسے حالات میں 1954ء میں ورور پشتون کے نام سے قومی سیاسی پارٹی کا قیام عمل میں لایا اور بولان تا چترال تمام پشتونخوا وطن کی وحدت پر مبنی خودمختیار قومی صوبہ پشتونستان کی تشکیل کا واضح پروگرام پیش کیا۔
ورور پشتون پارٹی نے قومی شعور کی بیداری اور قومی تحریک کو متحد و منظم کرنےمیں تاریخی کردار ادا کیا۔ رحیم صاحب نے کالج کی طالب علمی کے دوران ورور پشتون میں سرگرم کارکن کی حیثیت سےفعال کردار ادا کیا۔ پچاس کی دیہائی پشتون اور بلوچ قومی سیاسی تحریکوں کو علمی نظریاتی اور سائنسی بنیادوں پر منظم کرنے کی دیہائی ہے۔ جس میں سائیں کمال خان شیرانی، عبداللہ خان جمالدینی اور ڈاکٹر خدائیداد جیسے بلندپایہ عالموں اور انقلابی دانشوروں کے قایم کردہ ادبی تنظیموں پشتو و بلوچی رسالوں فی الحال اسٹیشنری اور لٹ خانہ نے تاریخی کردار ادا کیا۔
رحیم صاحب کی خوش نصیبی یہ تھی کہ ان کو طالب علمی کے دوران سیاسی تعلیم و تربیت کا علمی ماحول اور کمال خان شیرانی جیسے عظیم سیاسی رہنما اور افغان شناس انقلابی دانشور کی سرپرستی اور رہنمای حاصل تھی۔
رحیم صاحب نے کالج کےطالب علمی کے دوران ٹولواکی ( اقتتدار اعلیٰ) پر ایک کتاب تصنیف کیا۔ جس میں علمی استدلال سے ثابت کیا گیا ہے کہ کسی ریاست میں اقتدار اعلٰی کا حق عوام کو حاصل ہوتا ہے۔ جب پاکستان کے استعماری حکمرانوں نے ون یونٹ کے قیام کے بعد 1956ء میں صدارتی اور وحدانی طرز کا استعماری آئین نافذ کیا اور قوموں کی برابری اور جمہور کی حکمرانی پر مبنی وفاقی پارلیمانی جمہوری آئین کی تشکیل کا راستہ روک لیا۔ تو محکوم قوموں کے پارٹیوں میں 57-1956ء میں نیشنل عوامی پارٹی کا قیام عمل میں لایا۔ نیشنل عوامی پارٹی نے سامراج دشمن، استعمار دشمن جاگیردار دشمن پروگرام اور پشتون، بلوچ، سندھی، بنگالی اور پنجابی قوموں اور عوام کے قومی سیاسی جمہوری اقتدار کا قیام، ون یونٹ کے خاتمے اور لسانی اور ثقافتی بنیادوں پرقوموں کے خودمختیار صوبوں کی تشکیل اور مثبت غیر جانبدار خارجہ پالیسی کا پروگرام پیش کیا۔ جب پارٹی نے ان اہداف کے حصول کیلیے بھرپور جدوجہد کی اور اس کو قوموں عوام کی مکمل حمایت حاصل ہوگئی تو استعمار گروں نے پنجاب کے مفاد میں بنائے گئے 1956ء کی آئین کا خاتمہ کر کے 7 اکتوبر 1958ء میں پہلا ایوبی مارشلاء نافذ کیا اور ملک پر ننگی فوجی آمریت مسلط کر دی۔
مارشلاء کے پہلے اور اصل حملے کا نشانہ نیشنل عوامی پارٹی اور اس کی قیادت تھی۔ کوئٹہ کے میونسپل ہال میں اسپیشل ملٹری کورٹ نے خان شہید پر مقدمہ چلایا اور دسمبر 1958ء میں ان کو چودہ سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔ محترم رحیم صاحب ملٹری کورٹ میں خان شہید کی ہر پیشی میں موجود رہے۔ خان شہید کی سزا کے رحیم صاحب نے پارٹی پر پابندی کے دوران بھی سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھا اور پابندی کے خاتمے پر 1963ء میں نیشنل عوامی پارٹی کو کوئٹہ ڈویژن میں دوبارہ بحال کرنے اور منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جب 1968ء میں قومی، طبقاتی اور جمہوری مسئلوں پر پارٹی دو حصوں نیپ ولی اور نیپ بھاشانی میں تقسیم ہوئی تو آپ نے نیپ بھاشانی کا ساتھ دیا اور پارٹی منشور کے بنیادی اصولوں پر قائم رہے۔ ایوبی مارشلاء کے خاتمے کی تحریک میں نیشنل عوامی پارٹی نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اور پھر 1969ء میں پہلی بارمتحدہ اور خودمختیار پشتون قومی صوبہ کی تشکیل کا امکان پیدا ہوا۔ کیونکہ محکوم قوموں کی پارٹیوں کے علاوہ استعماری پارٹیوں نے بھی ون یونٹ کے خاتمے اور قومی مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد ڈیموکریٹک الیکشن کمیٹی کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا اور نیپ ولی اس اتحاد کا اہم ممبر تھا۔ لیکن جب اس اجلاس میں نئے صوبوں کی تشکیل کا سوال زیر بحث آیا تو اس وقت کے نیشنل عوامی پارٹی کے صدر ولی خان کی زمہ داری یہ بنتی تھی۔ کہ وہ پارتی کے منشور و پروگرام کے مطابق لسانی اور ثقافی بنیاد پر قومی صوبے بنانے کی تجویز پیش کرتے۔ اور اس طرح جنوبی پشتونخوا (برٹش بلوچستان کے پشتون علاقے) کو مشرقی پشتونخوا (صوبہ سرحد) کیساتھ متحد کرکے خودمختار صوبہ پشتونستان بنانے کے موقف پرقائم رہتے۔ وہ اس لیے بھی کہ یہ وہ وقت تھا کہ پشتون قوم طویل مدت کی مشکلات کے بعد ایک بار پھر اپنے منزل کے قریب تھا۔ لیکن ہوا یہ کہ 1947ء کے طرز پر ایک بار پھر پشتونوں کو تاریخی ناکامی سے دوچار کیا گیا۔ اس ناکامی کی اصل سبب یہ تھی کہ پشتون قومی تحریک اور پارٹیوں نے 1956ء میں دیگر قوموں کے تحریکوں اور پارٹیوں میں ضم ہوچکی تھی۔ پشتونوں کی اپنی خومختار قومی پارٹی نہیں تھی جو وقت اور حالات کے مطابق پشتون قومی مفاد کا دفاع کرتی اور دیگر قوموں کی طرح اپنی سرزمین کو متحد اور خودمختار بنا دیتی۔
خان شہید کے علاوہ تمام پشتون قیادت نے بلوچ اور پنجابی قیادت کے زیر اثر آکر پشتون سرزمین کی تقسیم اور جنوبی پشتونخوا کو بلوچ کا حصہ تسلیم کیا۔ حالانکہ جنوبی پشتونخوا تاریخ میں کبھی بھی بلوچستان کا حصہ نہیں تھا حتیٰ کہ انگریز نے بھی اپنے مسلط کردہ استعماری معائدوں کے تحت مقبوضہ افغان سرزمین جنوبی پشتونخوا کو بلوچستان سے الگ رکھا تھا۔ اگرچہ اس نے اپنے مذموم مقاصد کے تحت اس کو برٹش بلوچستان کا گمراہ کن نام دیا تھا۔ اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کا اس اجلاس میں نیشنل عوامی پارٹی کی پشتون قیادت کے اس تاریخی غلط فیصلے کے واقت خان شہید لاہور میں موجود تھے۔ اور یہ وہ مقام ہے جب پشتون قومی تحریک میں محکوم پشتون کی وحدت کے سوال پر اہم اختلافات پیدا ہوئے۔ خان شہید نے اس غلط فیصلے سے سخت اختلاف کیا اور اس کی مخالفت میں قناعت بخش دلائل پیش کیے۔
نیشنل عوامی پارٹی کی منشور کے مطابق اس وقت تک کوئٹہ اور قلات میں پارٹی کے دو صوبائی یونٹ تھے۔ لیکن اس غلط فیصلے کے بعد بلوچ قیادت نے پارٹی کے منشور کے بر خلاف بلوچستان کے نام سے کوئٹہ اور قلات کا ایک صوبائی پارٹی یونٹ بنانے کی کوشش کی تاکہ آگے جاکر سابقہ صوبوں کی بحالی کے گمراہ کن نام کے تحت پشتون سرزمین کو بلوچستان کا حصہ قرار دے سکے۔
ایسے حالات میں جولائی 1970ء میں کوئٹہ میں ہنہ کے مقام پر پشتونوں کا ایک اجلاس ہوا جس میں پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کا قیام عمل میں آیا اور خان شہید اس کے صدر منتخب ہوئے۔
محترم عبدالرحیم صاحب قومی اور وطنی بنیاد پر قائم ایک قومی جمہوری اور انقلابی پارٹی کو محکوم افغان وطن (جنوبی و شمالی پشتونخوا) کی ملی وحدت، متحدہ قومی صوبہ پشتونخوا کی تشکیل، پشتون محنت کش اور وطنپال عوام کی قومی جمہوری اقتدار کی قیام اور آزاد افغانستان کی آزادی اور ملی استقلال کی دفاع کا واحد وسیلہ اور بنیادی شرط قرار دیتے تھے۔ انہوں نے پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کی قیام کے بعد خان شہید کی قیادت میں قومی تحریک کو متحد و منظم کرنے میں اہم رول ادا کیا۔
جب 2 دسمبر 1973ء میں پشتونخوا اور برصغیر کی آزادی کے عظیم سالار خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کی شہادت کا عظیم ملی سانحہ رونما ہوا۔ تو عبدالرحیم صاحب نے گلستان میں خان شہید کی نماز جنازہ کے تاریخی اجتماع میں ملی قہرمان خان شہید کے تاریخی رول، قومی تحریک میں ان کے مقام اور قربانیوں پر تاریخی خظاب کیا۔
محترم رحیم صاحب نے خان شہید کی شہادت کے بعد پشتونخوا نیپ کے نوجوان صدر محترم محمود خان اچکزئی کی قیادت میں پارٹی کو محکوم پشتونخوا وطن کے محنت کش اور وطنپال پشتون/افغان عوام کا نمائندہ قومی پارٹی بنانے میں تاریخی رول ادا کیا۔ پشتونخوا نیپ نے فروری 1975ء میں کوئٹہ پشین ضلع کی تقسیم اور کوئٹہ میں بلوچ علاقوں کو شامل کرنے کے پشتون دشمن اقدام کے خلاف پرزور احتجاجی تحریک چلائی جس کے نتیجے میں وزیراعظم زوالفقار علی بھٹو نے کوئٹہ کے گورنر ہاوس میں اعلیٰ سطحی اجلاس بلایا۔ جس میں گورنر احمد یار خان دیگر بلوچ نمائندوں اور پشتونخوا نیپ کے رہنماوں نے شرکت کی۔ اور پشتون اور بلوچ نمائندوں نے وزیر اعظم کی موجودگی میں کوئٹہ کے مسئلے پر اپنا اپنا موقف پیش کیا۔ محترم رحیم صاحب نے اس اجلاس میں تاریخ کے مستند ریکارڈ سے ثابت کیا کہ شال کوئٹہ جنوبی پشتونخوا کا مرکز اور تاریخی افغانستان کا جنوبی برج ہے۔ وزیر اعظم بھٹو نے اس اجلاس کے بعد ضلع کوئٹہ میں دیگر علاقے شامل نہ کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا۔
رحیم صاحب نے پارٹی کو علمی، نظریاتی اور سائنسی بنیادوں پر منظم کیا اور پشتونخوا وطن کے تمام اہم مرکزوں میں تنظیمی یونٹ قائم کیے اور پارٹی نے قومی ، جمہوری اور عوامی مسئلوں پر عوام کا قومی شعور بیدار کیا۔
1977ء میں حزب اختلاف کی پارٹیوں کے نوستاروں کے اتحاد پاکستان نیشنل آلائنس (پی این اے) نے نظام مصطفیٰ کے نام پر بھٹو حکومت کے خلاف تحریک چلائی جو جنرل ضیائ کی فوجی امریت پر منتج ہوا۔ جبکہ پشتونخوا نیپ نے جمہوریت اور آئین کی دفاع کی تحریک چلائی۔
ایسے حالات میں اپریل 1978ء میں افغان ثور انقللاب برپا ہوا۔ جس نے خطے کی صورتحال کو یک لخت تبدیل کر دیا اور محکوم پشتونخوا وطن انقلابی افغانستان میں مداخلت و جارحیت کا اڈہ بن گیا اور جنرل ضیاء نے سامراجی مملاک کی مدد سے دنیا بھر کے عالمی دہشتگردوں کو پشتونخوا وطن کے مراکز میں جمع کیا اور افغان انقلاب کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ کا آغاز کیا۔ جب پاکستانی اور ایرانی اڈوں سے افغانستان کے عوام اور انقلاب کے خلاف مداخلت و جارحیت حد سے بڑھ گئی تو دسمبر 1980ء میں افغانستان اور انقلاب کی دفاع کیلیے روس کے محدود فوجی دستے افغانستان میں داخل ہو گئے۔ جس کو بہانہ بنا کر پاکستانی حکمرانوں، سامراجی امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے باہم ملکر افغانستان کے تمام آبادی کومسلح جارحیت سے ملیامیٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ پشتونخوا نیپ نے انتہائی مشکل صورتحال میں افغان انقلاب اور افغانستان کی آزادی اور ملی استقلال کا دفاع کیا۔
رحیم صاحب نے 1981ء میں بحر ہند خلیج فارس اور امریکی سامراج کے عنوان سے ایک ایسا کتابچہ تحریر کیا جو اس خطے کی سیاسی تاریخ کا مختصر خاکہ بھی ہے اور یہ بحر ہند کے ارد گرد کے ممالک کی اسٹریٹجک اہمیت اس خطے میں سابقہ انگریزی استعمار اور موجودہ امریکی سامراج کے سامراجی پالیسیوں اور استعماری اہداف کو واضح کرنے کا ایک تاریخی دستاویز ہے۔
محترم رحیم صاحب کا تجزیہ یہ تھا کہ افغانستان کے خلاف معاندانہ رویہ ہمارے ملک کے ان استعماری طبقات کے صرف ایک فوجی یا سول ٹولے کا متعین شدہ نہیں بلکہ جب تک یہاں عوام کی حقیقی، قومی اور جمہوری حکومت قائم نہیں ہوتی اس وقت تک افغانستان کے خلاف جارحیت کا عمل جاری رہیگا۔ خواہ مستقبل میں اقتدار سول نمائندوں کو منتقل کیوں نہ ہوں۔
جب جنرل ضیائ کی فوجی آمریت نے ملک میں قوموں اور عوام کے جمہوری اقتدار کے امکانات مکمل طور پر ختم کر دئیے تو آگست 1983ء میں پشتونخوا نیپ اور جمہوری پارٹیوں کے اتحاد تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) نے فوجی آمریت کے خلاف عملی جدوجہد شروع کی۔ تو ایم آر ڈی کی تحریک میں کوئٹہ میں پارٹی کی 7 اکتوبر کے شہداء کے سانحے، پارٹی کے رہنماؤں و کارکنوں کی گرفتاریوں اور ناروا مقدمات کے باعث محترم محمود خان اچکزئی کو پانچ سال تک روپوشی اختیار کرنا پڑی۔ محترم رحیم صاحب نے پارٹی کے قائم مقام صدر کی حیثیت سے پارٹی کو تمام پشتونخوا وطن میں اور کنوینر کی حیثیت سے ایم ار ڈی کو تمام ملک میں متحد و منظم کرکے ضیاء مارشلاء کے خلاف تاریخی رول ادا کیا۔ پشتونخوا میپ نے پشتون قومی سیاسی تحریک کو واحد قومی پارٹی میں متحد کرنے کیلیے طویل جدوجہد کی۔ پارٹی کا موقف یہ تھا کہ پشتون قوم زندگی اور موت کے دوراہے پر کھڑی ہے۔ تاریخ اسے اس مقام پر لے آئی ہے کہ وہ یا تو متحد ہوکر اس ساری صورتحال کو تبدیل کریں اور من حیث القوم اپنے وجود کی بقاء اور وحدت کی قیام کیلیے جدوجہد کرے ورنہ مزید تباہی سے اس کا بچنا محال ہے۔ پارٹی کے اس موقف کی حقانیت کا ادراک سب سے پہلے محترم شیر علی باچا کی قیادت میں قومی تحریک کی ایک اہم پارٹی پشتونخوا مزدور کسان پارٹی نے کر لیا تو 26 اکتوبر 1986ء کو پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی اور پشتونخوا مزدور کسان پارٹی نے پشاور کے تاریخی اعلامیہ میں پشتونخوا ملی عوامی اتحاد کا قیام عمل میں لایا۔ جو محترم رحیم صاحب، محترم شیرعلی باچا اور محترم عبدالرزاق دوتانی کی قیادت میں بولان سے چترال تک تمام پشتونخوا وطن کے عوامی دوروں، اولسی جرگوں اور تین سال کی تنظیمی تیاریوں کے بعد 1989ء میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے تاریخی تاسیسی کانگرس کے انعقاد پر منتج ہوا۔ قومی تحریک کی اتحاد کے اس عمل میں رحیم صاحب نے تاریخی رول ادا کیا۔ جب پشتون بلوچ دو قومی صوبہ میں پشتونوں کو نابرابری اور محرومی کی صورتحال کا احساس ہونے لگا اور قومی شعور بیدار ہوا تو پشتون منظم انداز سے اپنے قومی اختیار اور جمہوری اقتدار کی قیام اور قومی اہداف کی حصول کی راہ پر گامزن ہوے تو بعض بلوچ قوتوں نے قبضہ گیری کے سیاست کی حکمت عملی کے تحت صوبائی حکومت کے ذریعے پشتونوں کے تمام حقوق و اختیارات پر قبضہ جمانے کا راستہ اپنایا۔ 1991ء میں بعض بلوچ قبضہ گروں نے پشتون گورنر اور بوستان زرعی کالج کا بہانہ بنا کر پشتونوں پر زور زبردستی و دہشتگردی سے ہڑتالیں مسلط کرکے پشتون دشمن اقدامات کا سلسلہ شروع کیا اور بندوق کے زور پر اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اور 11 اکتوبر1991ء کو پشتونخوا میپ کے مرکزی سیکرٹریٹ پر حملہ کر کے پارٹی کے پانچ رہنماوں و کارکنوں کو شہید اور چار کارکنوں کو زخمی کیا اور پھر تمام بلوچ علاقوں میں پشتون محنت کشوں پر جارحانہ حملوں، دہشتگردی، تشدد اور لوٹ مار کے اقدانات سے پشتونوں کو بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان پہنچایا۔ اور پشتونوں پر اپنے علاقوں کے تمام راستے بند کر دئیے ایسے حالات میں اس اہم قومی مسئلہ پر پشتون اولس قومی جرگہ کا انعقاد ہوا۔ یہ جنوبی پشتونخوا کے تمام اعوام کا نمائندہ جرگہ تھا جس نے قوم اور وطن کی دفاع کیلیے تاریخی فیصلے کیے۔ رحیم صاحب نے اس جرگہ میں جنوبی پشتونخوا کی ماضی کی تاریخ پہ مستند ریکارڈ کا ایک ایسا خاکہ پیش کیا جو ایک اہم قومی اثاثہ ہے۔ اکتوبر 1997ء میں پشتون دشمن مردم شماری کے مسئلے پر بھی پشتون اولس قومی جرگہ منعقد ہوا جس میں رحیم صاحب نے 1901ء سے لیکر 1981ء تک تمام مردم شماریوں کا ریکارڈ پیش کیا اور بلوچ علاقوں میں دھاندلی کی مردم شماری کے ناقابل تردید ثبوت فراہم کیے۔ جب 1992ء میں کوئٹہ کے غالب اکثریت کی پشتون آبادی کو اقلیت میں بدلنے کی غرض سے پشتون دشمن بلدیاتی حلقے مسلط کیے گیے اور بلوچ حکمرانوں نے پشتونوں کے جائز مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کیا اور پشتونوں کی پرزور احتجاج کا کوئی پرواہ نہیں کیا تو محترم رحیم صاحب نے کوئٹہ کے باچا خان چوک پر تا دم مرگ بھوک ہڑتال کو 16 دنوں تک جاری رکھا۔ اس تاریخی بھوک ہڑتال کے دوران جنوبی پشتونخوا کے عوام نے تاریخی احتجاجی تحریک جاری رکھی اور پشتون عوام نے ایسا تاریخی احتجاج کیا کہ مرکزی حکومت کو پشتون دشمن بلدیاتی حلقوں کا نوٹیفیکیشن واپس کرنے کا فیصلہ کیا۔ رحیم صاحب نے اپنی زندگی کو داؤ پر لگا کر کوئٹہ کا دفاع کیا۔ محترم رحیم صاحب نے پشتون رہبر کمیٹی پشتونخوا نیشنل ڈیموکریٹک آلائنس، محکوم قوموں کی تحریک پونم (PONM) اور جنرل مشرف کی مارشلاء کے خلاف ملک کی تمام پارٹیوں کی جمہوری تحریک APDMمیں بھی تاریخی کردار ادا کیا۔ رحیم صاحب نے ممبر سینیٹ، ممبر صوبائی اسمبلی اور ممبر قومی اسمبلی کے حیثیت سے پارلیمان کے محاز پر محکوم قوموں اور مظلوم عوام کی حق میں موثر آواز اٹھائی۔ اور ملکی آئین کو قوموں اور عوام کی حق میں تبدیل کرنے وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام اور جمہوری فیڈریشن کی تشکیل کیلیے اٹھارویں آئینی ترمیم کی تیاری اور منظوری میں تاریخی رول ادا کیا۔ صوبائی اسمبلی کے Roles of Businessبھی رحیم صاحب کا کارنامہ ہے۔ پشتو عالمی کانفرنسوں اور خان شہید کے سیمیناروں میں ان کے علمی مقالے قومی سیاسی اور ادبی موضوعات پر ان کے علمی مضامین افغان تاریخ پر ان کے تصانیف "انگریز استعمار اور افغانستان” اور "افغان اور افغانستان” پارٹی اداروں، عوامی اجتماعات اور پارلیمنٹ میں ان کے تقاریر پشتون افغان ملت کیلیے عظیم قومی اثاثہ ہے۔ محترم رحیم صاحب محکوم افغان وطن کے محنت کش اور وطنپال عوام کی قومی آزادی، جمہوریت، سماجی انصاف، امن و ترقی اور آزاد افغانستان کی آزادی، ملی وحدت اور ملی استقلال کی دفاع کے عظیم علمبردار تھے۔ وہ افغان تاریخ کے ممتاز تاریخ دان و قانون دان، عظیم انقلابی دانشور اور سماجی سائنسدان تھے۔ وہ افغان قومی سیاسی تحریک کے عظیم اور تاریخ ساز قومی رہنما تھے۔