ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ پاک فوج زندہ باد کا نعرہ لگانے والے بھی وہی ہوتے ہیں جو کہ وقت آنے پہ پاک فوج مردہ باد کے نعرے بھی لگا جاتے ہیں۔
مجھے تھرکی ایک ماں کے ساتھ سے ہونے والے اس ظلم کی داستاں بھی یاد ہے جس نے اپنے تمام بیٹے بھینٹ چڑھادیے تو مجھے بلوچستان میں ہوئی اس جنسی زیادتی کے واقعے کی بھی سب سن گن ہے جس کی بھینٹ اکبر بگٹی جیسا نواب چڑھادیا گیا۔
پر اس سب کے باوجود ہمیں افواج پاکستان سے بہت پیار ہے ہم ان کے بارے میں بہت جذباتی بھی ہیں اور ان سے عقیدت اور احترام کا رشتہ بھی رکھتے ہیں۔
حفاطت پہ مامور شمشمیر ہاتھ میں لیے بے تیغ لڑے والا ہر وہ سپاہی ملت کا پاسباں ہے اور ہمارے سے کا تاج ہے جو کہ واقعی غیر سیاسی ارادوں سے ملک و ملت کی خدمت پہ مامور ہے خواہ وہ کوئی سپاہی ہو یا اعلی تریں افسر۔
عوام کا مسئلہ اس وقت فوج سے نفرت نہیں ہے عوام کا مسئلہ اس وقت وہ شعور ہے جو ان میں جاگ چکا ہے کہ یہاں ریاست کے اندر ریاست پنپتی ہے۔
کینٹ ایریا کے باہر رہنے والے کی زندگی کچھ اور ہے تو کینٹ ایریا کے اندر والوں کی کچھ اور۔
تہتر سالہ تاریخ میں طاقت اور حکومت کا دورانیہ عسکری حکمتوں کا زیادہ ہے پھر بھی تمام حالات کا زمہ دار وہ سیاسی اور سول قیادت ہے جن میں سے کوئی بھی منتخب کردہ وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہ کر سکا۔
پہ در پہ نت نئے سیاسی گٹھ جور بنا کے عوامی اور جمہوری طاقتوں کو اپنی انا کی بھینٹ چرھا دینے والے وہ عناصر جنہوں نے اس ملک کو پھلنے پھولنے نہ دیا عوام میں غم و غصہ ان کے خلاف نے نہ کہ پوری عسکری قیادت کے۔
سوشل میڈیا کے دور میں اب جب ہر جگہ چیز موجود ہے تو پھر ہر معلومات بھی ہر جگہ پہنچ جاتی ہے۔
جہاں ملک کے پہلے وزیر اعظم کو قتل کرنے والے کا ریکارڈ موجود نہ ہو جہاں ایک عظیم سیاسی قائد بھٹو کو پھانسی دے دی جائے جہاں آصف علی زرداری کی پوری حیات پابند سلاسل ہو جہاں بینظیر جو کہ واقعی بینظیر تھی اسے قتل کر دیا جائے جہاں تین مرتبہ نواز شریف کو معزول کر ہٹا کیا اشتہاری قرار دے دیا جائے اور صرف ایک دفعہ کہ ایک فوجی ڈکٹیٹر کو سزا دینے والی عدالت کو ہی غیر آئیننی قرار دے دیا جائے وہاں ہم کیسے کسی کے جزیروں، بیرون ملک جائیدادوں یہاں تک کہ پیزا چینز کی رسیدیں ملنے کی توقع کر سکتے ہیں؟ بلکل بھی نہیں !
ہم فوج مخالف نہیں ہیں۔ فوج کی سیاست سے البتہ ضرور مخالفت ہے۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہر کوئی اسی سیڑھی کے سہارے ہی اور آتا اور چل پاتا ہے مگر موجودہ ڈمی حکمران جیسا نہ کبھی کوئی آیا نہ ہی کبھی کوئی اقتدار میں آئیگا۔
جھوٹ کا بائیس سالہ پلندہ جو کہ کبھی بھی کسی کا بھی سچا ساتھی نہ بن سکا نہ کبھی بن پائیگا۔ ہ
م کبھی بھی اس شخص کا مقابلہ نہیں کر سکتے جو کہ جھوٹ بہت اعتماد سے بولتا ہو اور اس کا اپنا دامن پورا داغدار و تار تار ہو۔
اس نظام کو اب بدلنا ہوگا ورنہ عوام میں پانا جانے والا غم و غصہ کبھی بھی ایک طوفانی صورت اختیار کر سکتا ہے۔
طاقت کے ایوانوں کو اب یہ سمجھنا ہوگا کہ سوال کرنا گناہ نہیں ہے نہ ہی کوئی جرم کہ سوال کرنے والا ہی غائب کردیا جائے۔
ایک خودساختہ قطعے سے اختتام کرونگا کہ:
محبت ہمیں ان جوانوں سے ہے جو کہ ڈالتے ہیں کمند ستاروں پہ نہ کہ ایوانوں پہ۔۔۔
ختم شد