کوئٹہ
سول سوسائٹی کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ عورتوں کے خلاف تشدد ایک خطرناک حد تک عالمی مظہر کا باعث بن رہا ہے ۔ جس سے بے شمار عورتوں کی عزت و ناموس متاثر ہو رہی ہے۔ تشدد ایک بہت ہی بڑا صنفی امتیاز ، غیر مساویانہ رویہ اور معاشرے میں نا ہمواری کا بڑھتا ہو ا ذریعہ بن رہا ہے ۔ تشدد کے حوالے سے اعداد و شمار برف پگھلنے کا ایک معمولی ذرہ معلوم ہوتا ہے ۔ عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کے اعداد و شمار مستقبل میں بننے والی پالیسی اور قانونی اصلاحات کے سلسلے میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں ، سیاسی جماعتوں اور قانون دانوں کو مصالحتی طریقہ کار ، ترقیاتی پالیسیوں کے فریم ورک اور ادارتی نظام کے تحت عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمہ میں مددگار ثابت ہونگے۔ کوئٹہ پریس کلب میں بلوچستان وومن بزنس ایسوسی ایشن کی چیئرپرسن ثنا درانی، عورت فائونڈیشن کی یاسمین مغل، اساس پی کے کے وطن یار خلج اور دیگر سماجی اداروں کے رہنمائوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔
سول سوسائٹی کے رہنمائوں کا کہنا ہے تھا کہ ہر سال صنفی تشدد کے خلاف فعالیت کے 16دن منائے جاتے ہیں ۔جو 25نومبر سے شروع ہو کر 10دسمبر تک جاری رہتے ہیں ۔ سال 2021کا موضوع” صنفی تشدد کے خلاف تشدد کا خاتمہ ، آج اور ابھی”ـ “Gender Based Violence” ہے۔ دنیا کی تمام عورتوں کی تحریکیں ان 16دنوں میں عورتوں پر ہونے والے تشدد اور جبر کے خلاف اپنی آواز بلند کرتی ہے ۔ فعالیت کے یہ 16دن پوری دنیا میں عورتوں پر تشدد اور جبر کے خلاف جدوجہد کی علامت کے طور پر منائے جاتے ہیں ۔ اس سلسلہ کو مد نظر رکھتے ہوئے خواتین کی حیثیت پر قومی کمیشن (NCSW)، محکمہ برائے ترقی خواتین حکومت بلوچستان ، عورت فائونڈیشن ، برداشت، اساس پی کے اور EVAW/G Allianceنے سال2021 کے موضوع “ـصنفی تشدد کے خلاف تشدد کا خاتمہ ، آج اور ابھی”ـ مد نظر رکھتے ہوئے اس موقع پر ایک چارٹر آف ڈیمانڈ بھی حکومت وقت کو پیش کریں گے :
بلوچستان میں اپنے مہم کا آغاز 25نومبر کو بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام (BRSP)کے دفتر میں میں منعقدہ تقریب سے کریں گے۔ مہم 10دسمبر 2021 انسانی حقوق کے عالمی دن پر اختتام پزیر ہو گی۔ اس مہم کے دوران پارلیمنٹیرینز کے ساتھ میٹنگ ، سیمینار ، عورت قیادت اسمبلی، پینل ڈسکشن کا انعقاد اور ، مختلف اضلاع کے نوجوان طلبا و طالبات کے ساتھ صنفی تشدد کے خلاف پروگرام کا انعقاد شامل ہیں ۔ مہم کے اختتام پر ایک میگا پروگرام کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔
پریس کانفرنس سے خطاب میں مقررین نے کہا کہ اس ضمن میں آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ اس سال ہماری یہ کوشش ہو گی کہ کچھ سرگرمیاں یونین کونسل کی سطح پر بھی منعقد کی جائے گی جس میں طلبا اور طالبات کو زیادہ سے زیادہ شامل کرنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ نئے آنے والے نوجوان نسل کو خواتین کے حقوق کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ آگاہی مل سکیں ۔ ہم اس موقع پر ایک چارٹر آف ڈیمانڈ بھی حکومت وقت کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں
بلوچستان مین خواتین کی حالت زار بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں سیاسی عمل میں شمولیت کے ساتھ ساتھ سیاسی سطح پر مستحکم کیا جائے اور زندگی کے تمام شعبوں میں نمائندگی دی جائے ۔خواتین کے حقوق کی سب سے بڑی گارنٹی انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے ۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں رائج پدرسری نظام کے ساتھ ساتھ قبائلی رسم و رواج کے تحت عورت کو جائیداد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو اس کے حقوق کے برعکس ہے ۔ عورت کو واقعی طور پر اس کا مقام دینا مقصود ہو تو انہیں سیاسی ، تعلیمی ، انتظامی اور مالی طور پر مستحکم کرنا ہوگا۔ ہم نے آج تک عورت کو انسان ہی نہیں سمجھا ۔ ان کو طرح طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
http://https://youtu.be/VuimyKtSFMg
موجودہ صورتحال کرونا کے باعث خواتین پر گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔ کرونا کے باعث محنت کش عورت جہاں معاشی طور پر سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے وہاں اسے گھریلو تشدد کا زیادہ سامنا کرنا پڑا ۔ بچیوں کی کم عمری اور جبری شادی کے رجحانات سے بچیوں کی صحت پر خطرنات اثرات مرتب ہورہے ہیں جس کی وجہ سے 2019 کے ایک سروے کے مطابق سالانہ ایک لاکھ میں سے 782مائیں بچوں کی پیدائش کے دوران دم توڑ جاتی ہیں ۔ پاکستان میں 21فیصد بچیوں کی شادی 18سال کی عمر سے پہلے کر دی جاتی ہے۔ جب تک رویوں میں تبدیلی نہیں لائی جائے گی اُس وقت تک عورت کااستحصال ہوتا رہے گا۔ حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس چارٹر آف ڈیمانڈ کو اپنی ترجیحات میں رکھتے ہوئے اس پر عمل درآمد کروائیں اور جو قوانین اب تک اسمبلی میں پیش نہیں ہوئے ان کو اسمبلی میں پیش کروانے کے ساتھ ساتھ ان کو منظور کروائیں۔
پریس کانفرنس کے دوران پیش کئے مطالبات
1۔ پاکستان کے دوسرے صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی خواتین کی حیثیت کے حوالے سے صوبائی کمیشن کو جلد از جلد فعال بنایا جائے
2۔ ہم مخلوط صوبائی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ کم عمری کی شادی کی روک تھام کے حوالے سے بل کو فوری طور پر
بلوچستان اسمبلی سے منظور کرایا جائے
3۔ تیزاب سے متاثرہ خواتین کی بحالی اور آبادکاری کے لئے بل اسمبلی میں فل فور لا یا جائے ۔
4۔ ہم مخلوط صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ صوبائی کابینہ میں خواتین ارکان اسمبلی کو موثر نمائندگی دی جائے۔
5۔ تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں مقام ِکار پر مرد اور خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون 2016کا نفاذ ہو چکا ہے۔
اس سلسلے میں محکموں میں کمیٹیوں کی تشکیل اور عوامی سطح پر اس کی آگاہی کو یقینی بنایا جائے۔
6۔ گھریلو سطح پر ہونے والے تشدد کے خلاف بنائے گئے قانون کو لاگو کرنے کے لئے قوائد و ضوابط تشکیل دئیے جائیں۔
7۔ ہوم بیسڈ ورکرز کے سماجی اور معاشی تحفظ کے لئے صوبائی سطح پر پالیسی ترتیب اور تشکیل دی جائے ، خواتین کی معاشی حالت کو
بہتر بنانے کے لئے ترقیاتی اسکیمیں تشکیل دی جائیں نیز خواتین کی تیار کردہ مصنوعات کو آخری شکل دینے کے لئے صوبائی سطح پر
پروڈکٹ فنیشنگ یونٹس قائم کئے جائیں۔
8۔ بلوچستان میں امن اور بھائی چارے کی فضاء کو بحال کرنے کے لئے حکومتی سطح پر عوام کے تعاون سے پالیسی تشکیل دیجائے۔
9۔ ہم حکومت وقت سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ قدرتی آفات سے بروقت نمٹنے کے لئے صوبائی و ضلعی سطح پر ڈزاسٹر
مینجمنٹ اتھا رٹیز کے علاوہ مخیر حضرات ، سول سوسائٹیز کے اراکین ، مقامی نمائندوں اور سکائوٹس کے اشتراک سے ازسر نو
کمیٹیاں تشکیل دے کر منظم کیا جائے تاکہ بوقتِ ضرورت خواتین اور بچوں پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے فعال کردار ادا کر سکیں اور
ہرنائی میں ہونے والے زلزلہ کے متاثرین کے لئے امدادی عمل تیز کیا جائے تاکہ سردیوں سے پہلے ہی ان کی امداد ہوسکیں۔
10۔ سرکاری اداروں میں تمام سطحوں پر خواتین کو برابری کی بنیاد پر نمائندگی دی جائے ۔
11۔ تمام سرکاری اور غیرسرکاری اداروں میں معذور افراد کی آسان رسائی کے لئے اقدامات کئے جائے۔
12۔ سنڈیمن صوبائی ہسپتال میں نفسیاتی صحت کا مرکز قائم کیا جائے۔
13۔ تمام بنیادی مرکز صحت میں موبائل فیسٹیولا سینٹر کا قیام عمل میں لایا جائے۔
14۔ محکمہ سماجی بہبود کے تحت کام کرنے والے اداروں جیسا کہ دارالامان اور مخصوص بچوں کے تربیتی مراکز میں ماہر نفسیات کی تعیناتی کو
عمل میں لایا جائے۔
15۔ ہم تما م سیاسی جماعتوں سے پُر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ جنرل نشستوں پر بھی خواتین کو برابری کی بنیاد پر نامزد کیا جائے ۔
16۔ سرکاری اور غیر سرکاری ادارے بشمول ِ سیکریٹریٹ، چیمبر آف کامرس ، عدالتیں ، میڈیا ہاوسس اور پارکوں میں وومن فرینڈلی سپیس
جیسا کہ ڈے کیئر سینٹر ، باتھ روم ، آرام گاہ اور معلوماتی ڈیسک کا قیام عمل میں لایا جائے۔
17۔ ایچ آر پالیسی برائے میڈیا ہاوسس کو صنفی حساسیت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا جائے ۔
18۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے فوری اور تیز ترین سماعت کے لئے عدالتوں میں موثر اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔
19۔ صوبہ بلوچستان میں ڈویژنل سطح پر دارالامان کا قیام عمل میں لایا جائے اور تشدد سے متاثرہ خواتین کی فوری قانونی رہنمائی اور مقدمات
کو جلد از جلد نمٹانے کے لئے وکلاء پینل کی تعیناتی کو عمل میں لایا جائے۔
20۔ صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتے ہے کہ مخنس (خواجہ سراہ ) کے سماجی اور معاشی تحفظ کے لئے صوبائی سطح پر پالیسی ترتیب اور تشکیل دی جائے اور ان کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لئے حکومتی کوٹہ کے مطابق روز گار فراہم کیا جائے۔