Thursday, January 23, 2025
No menu items!

نصیرآباد؛ سٹریس کے باعث زمینوں سے مطلوبہ کاشت ممکن نہیں، رپورٹ

سٹریس کی بیماری نے بڑے پیمانے پر زمینوں کو نقصان پہنچایا جس کی ریکوری ایک یا دو سالوں میں ممکن نہیں۔ ماہرین کی بات چیت

اس ہفتے کی اہم خبریں

نصیرآباد؛

سٹریس کے بارے میں آج کل کے دوران ہر شخص جانتا ہے جوکہ ایک ذہنی بیماری ہے۔ کیا کبھی آپ نے یہ سنا ہے کہ یہ بیماری انسانوں کے علاوہ دوسرے جانداروں میں بھی پایا جاتا ہے؟ جی ہاں یہ بات درست ہے جس طرح یہ بیماری انسان کو اندر سے کوکھلہ کردیتا ہے بلکل اسی طرح باقی جانداروں کو تباہ و برباد کرتا ہے۔ جس طرح انسانوں میں پائے جانیوالے سٹریس کے بیماری کے 4سطح ہوتے ہیں جس میں سطح 1سب سے کم اور سطح 4سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ بلکل اسی فصلوں میں پائے جانیوالے سٹریس کی 3سطح ہوتے ہیں جن میں 1سطح کم 2درمیانی اور3سب سے زیادہ اور خطرناک سطح ہے۔ نصیرآباد ڈویژن بلخصوص جعفرآباد اور دیگر متاثرہ علاقوں میں فصلیں اس وقت دوسرے سے تیسرے درجے تک سٹریس کا سامنا کررہے ہیں۔

 

فصلوں میں پایا جانیوالا یہ سٹریس آخر کیاہے؟

اس بارے میں بلوچستان زرعی کالج کوئٹہ کے شعبہ پلانٹ پیتھولوجی کے اسسٹنٹ اور سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی ٹھنڈوجام کے پلانٹ ڈیزیز میں پی ایچ ڈی سکالر پروفیسر محمد وارث کا کہنا ہے کہ فصلوں میں سٹریس زیادہ دیر تک کھڑے پانی سے پیدا ہوتا ہے جو زمین کے اندر خوراک کو کمزور یا بلکل ختم کرتا ہے جس سے فصلیں ضائع ہوتی ہے یا پیداوار کم کردیتا ہے۔ سٹریس ان علاقوں میں ہوتا ہے جن علاقوں میں بے وقت فصل کاشت کی جائے جن علاقوں میں سردی اور گرمی موسم اچانک آجائیں یا کیمیکل ادویات کا بے دریغ استعمال کیا جائے جن فصلوں میں جڑی بوٹیاں زیادہ ہوں جو پودے کی خوراک بہت جلدی اور تیزی سے کھاجاتے ہیں وہاں سٹریس ہو سکتی ہے ایسے بہت سے وجوہات ہیں سٹریس کے اسپیسفک ایریا کا اندازہ ان سے لگایا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ بھی کوئی ناخوشگوار حالت یا عنصر جو پودے کی میٹابولزم گروتھ یا ڈویلپمنٹ اور فصل کی پیداوار کو متاثر کرے یا روک دے سٹریس کہلاتا ہے جو بائیوٹک (بیماری،ہربی وورس) یا اے بائیوٹک (فزیکل یا کیمیکل) وجوہات کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔

  • فزیکل سٹریس(ڈراؤٹ اور فلڈنگ،ٹمپریچر،لائٹ،ریڈی ایشن،ونڈ)
  • کیمیکل سٹریس (air pollution, heavy metal, pesticide, insecticide, toxins,soil pH, alkalinity)
  • بائیوٹک سٹریس(allelopathy, competition, disease,pest,human activity)

 

سٹریس کی وجہ سے زمینداروں کے پیدا ہونیوالے مسائل

جعفراباد سے تعلق رکھنے والے زمیندار ندیم بلیدی 50ایکڑ ذرخیز زمین کا مالک ہے۔ ان کا کاشت کردہ چاول سیلاب کی نظر ہوگیا۔ زمین پر کھڑا پانی نکالنے کا 2 ماہ تک کوئی تک کوئی بھی انتظام موجود نہ تھا۔ اس دوران ان کے محلے کا بجلی ٹرانسفارمر بھی جل گیا جس پر 1لاکھ 40ہزار روپے خرچ آرہا ہے لیکن حکومتی عدم توجہ کے باعث تاحال نہیں بن سکا۔ ٹرانسفارمر کی مرمت کیلئے انہوں نے ماہوا گھروں پر چندہ کرنے کا بندوبست کیا ہے جس کیلئے درکار رقم ابھی جمع نہیں کیا گیا ہے۔ ندیم بلیدی کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت کی جانب سے کسی قسم کی سپورٹ نہیں دی گئی۔ زمینوں پر کھڑے پانی نکالنے کا کوئی میکنیزموجود ہی نہیں۔ 2ماہ کے بعد جب پانی تھوڑا سا کم ہوگیا تب جاکر انہوں نے زمینوں سے اپنی مدد آپ کے تحت پانی نکالنے کا کام بذریعہ پمپ اور جنریٹر شروع کیا۔ ابھی تک زمینوں پر پانی کھڑا ہے کیوں کہ ہمارے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ فیول کیلئے یک مشت ادا کرکے جنریٹر چلا سکے۔ اسی وجہ سے جب بھی رقم جمع کرتے ہیں یاکہی سے ادھار لاتے ہیں تب اسی فیول خرید کر جنریٹر کا استعمال کرتے ہیں۔یہاں کے لوگ معاشی طور پر بہت زیادہ متاثر ہوچکے ہیں۔

نصیرآباد کے ضلعی جعفرآباد میں زمیندار محمد ندیم بلیدی کی زرعی زمین جس میں سیلابی پانی تاحال کھڑا ہے۔ (تصویر بشکریہ محمد ندیم)

تحصیل جھٹ پٹ گاؤں قیدی شاخ کے میندار اسلم بلوچ بھی سیلاب کے بعد پیدا ہونیوالی صورتحال سے پریشان ہے۔ وہ 22ایکڑ زمین کا مالک ہے جس پر پچھلے سال انہوں نے چاول، گندم، سرسوں اور چھولے کاشت کئے تھے۔ جس سے انہوں نے فی ایکڑ کے حساب سے 170من تک گندم، 200من چاول حاصل کئے تھے۔ جس سے سرکاری نرخ کے مطابق 9لاکھ تک آمدنی حاصل کی تھی۔ اس سال بارشوں کی وجہ سے فصل تو حاصل نہ کرسکا لیکن زمین کو واپس پرانے حالت میں لانے کے لیے پریشانی کا شکار ہے۔ اسلم بلوچ کہتے ہیں کہ زمینوں سے جنریٹر کے ذریعے سیلابی پانی 80 فیصد تک نکال لیا ہے۔ وہ اس سال بمشکل 50فیصد فصل کا توقع رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ وہ کچھ یوں بتاتے ہیں کہ جب سیلابی پانی زمینوں میں آتا ہے تو 5 سے 6 سال زمین کی آبادی 20% تک رہ جاتی ہے پھر ہر سال زمین مین کھاد کا اضافہ کیا جاتا ہے اور ہل ضرورت سے زیادہ چلای جاتی ہے۔ یہ زمینیں واپس اپنی حالت میں لانے کے 6سال لگتے ہیں۔ انہیں یہاں حکومتی سطح پر کسی قسم کی کھاد نہیں دی گئی ہے تاہم وہ کہتے ہیں کہ زمینوں کے لیے کھاد کی اشد ضرورت ہے جس کا حل انہوں نے دیسی کھاد کے استعمال ظاہر کیا۔ اسلم بلوچ حکومتی ادارے نالاں ہے کہ سیزن کے دن ہے اور کسی بھی زمیندار کو قسم کی کھاد نہیں دی گئی ہے۔ جب کہ ہمیں زمینوں کی صحت اور بہترین فصل کے لیے کھاد کی اعلیٰ ورائیٹز کی ضرورت ہے۔

 

فصلوں کو سٹریس سے بچانے والی غذائیں

پلانٹ ڈیزیز کے ماہر محمد وارث کا کہنا ہے کہ سلکون کا استعمال فصلوں میں امنیو کے نظام کو مضبوط اور توانا بناتا ہے جب سے پیداوار بڑھ جاتا ہے سلکون ایسا خوراک ہے جو فصل کا جڑھ بہت اسانی سے جذب کرتا ہے جبکہ بائیوفرٹیلائزر اور بائیو سٹیمولانٹس کے استعمال سے بھی فصل کے قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے حس سے فصلوں کی ریکوری بھی جلدی ممکن ہوتا ہے اور گوشوار ماحول میں بھی فصل کے لئے مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ لازمی ہے کہ فصل، مٹھی اور پانی کا اینالائسس (یعنی لیبارٹری ٹیسٹ) کرواکر بہترین غذا دی جائے تاکہ سٹریس سے بچا جاسکے اور سٹریس فری بیج کا استعمال کیا جانا چاہیے۔ سب سے اہم یہ کہ زمیندار کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے فصل کیلئے کون کونسی غذا بہترین اور فائدے مند ہے۔ اگر فصل کی بہترین نشوونماء نہ ہوئی ہو تو بجائے اس کے کہ نائٹروجن دی جائے زمیندار دوسری غذا فراہم کرتے ہیں یہ بھی فصل کو سٹریس میں لیجانے کا مترادف بن سکتا ہے۔

 

سٹریس کا باعث بننے والے گندم کی ورائٹیز

گندم کی کاشت میں ٹی ڈی1، گلیسی 13، گلیسی 2 اور سحر06 کی وراٹیز پر پابندی ہے لیکن اس کے باوجود یہاں لوگ اسے کاشت کررہے ہیں۔ اس سال حکومت بلوچستان نے بھی ٹی ڈی1 کے بیج تقسیم کئے ہیں۔ گندم کی یہ ورائٹیز رسٹ کی بیماری لاتا ہے جس سے فصلیں سٹریس میں چلی جاتی ہے۔ فصلوں پر فنگی سائیڈ سپرے کرنے کے بھی فائدہ بلکہ نقصان کا سبب ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس سال رسٹ کی بیماری 60فیصد تک فصلوں پر اثر انداز ہوگا۔ اگر مزید بارشیں ہوئی تو فصلوں پر رسٹ کا حملہ ہوسکتا ہے تاہم جن لوگوں نے نومبر یا دسمبر کے اغاز میں گندم کاشت کی ہے وہ کسی حد تک نقصان سے بچ سکتے ہیں۔

نصیرآباد، پلانٹ ڈیزیز کے ماہر محمد وارث علاقے میں ایک سروے کے دوران زمینداروں سے بات چیت کررہے ہیں۔ (فوٹو بشکریہ محمد وارث)

نصیرآباد ڈویژن پس منظر اور منتخب عوامی نمائندے

نصیر آباد ڈویژن اب ضلع کچھی، نصیرآباد، جھل مگسی، جعفراباد اور ضلع صحبت پور کے علاوہ اوستہ محمد (نیا ضلع) پرمشتمل ہے۔ 2017ء کے مردم شماری کے مطابق، اس ڈویژن کی مجموعی آبادی 1،591،144 افراد پر مشتمل ہے۔جس میں ضلع جعفرآباد کی کل آبادی725,000ہے۔ افت زدہ قراردینے والے اضلاع میں سب سے زیادہ متاثرہ ضلع جعفراباد، نصیرآباد اور صحبت پور ہے.اس ڈویژن میں گندم کے علاوہ، چاول، سرسوں، سورج کی مکھی، اور سبزیوں میں پیاز، ٹماٹر، بینگن اور بینڈی کاشت کئے جاتے ہیں۔ نصیرآباد ڈویژن بڑے پیمانے پربلوچستان میں گندم کی ڈیمانڈ کو پورا کرتا ہے۔ اس بے یار و مددگار نصیراباد ڈویژن پر بلوچستان کی حکمران پارٹی کی حکمرانی بھی ہورہی ہے۔ نصیرآباد ڈویژن سے بلوچستان کی حکمران پارٹی (بلوچستان عوامی پارٹی)اس وقت بلوچستان میں سپیکر اور قائم مقام گورنر جان محمد جمالی کے علاوہ مزید4اراکین اسمبلی میر سکندر علی،محمد خان لہڑی، نوابزادہ طارق مگسی اور خواتین کی مخصوص سیٹ پر ڈاکٹر ربابہ بلیدی بلوچستان اسمبلی میں نمائندگی کررہے ہیں جبکہ اس کے علاوہ عمر خان جمالی تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی ہے۔ صرف یہی بلوچستان عوامی پارٹی سے خالد حسین مگسی اور پاکستان تحریک انصاف سے میر خان محمد جمالی قومی اسمبلی بھی نصیرآباد ڈویژن کی نمائندگی کررہے ہیں۔ حکمران پارٹی کے حکمرانی کے باوجود یہاں کے لوگ نان شبینہ کے محتاج ہے۔ کئی مہینوں کے گزر جانے کے بعد بھی یہاں کے مسائل حل کرنا تو کیا کم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

 

 

- Advertisement -spot_img
دین محمد آراش
دین محمد آراشhttp://www.watanpaal.com
دین محمد آراش کوئٹہ انڈکس کے بانی اور فری لانس (آزاد) صحافی ہے۔ وہ گذشتہ 16سالوں سے صحافت کے شعبے سے منسلک ہے۔ بچوں کی صحت کے علاوہ بہبود نسواں اور دیگر سماجی مسائل پر رپورٹنگ کررہے ہیں
- Advertisement -spot_img
تازہ ترین

لاس اینجلس کی تباہ قصبے میں صحیح سلامت گھر کی حقیقت کیا ہے؟

کوئٹہ؛ ايک سرخ رنگت والا گھر جوکہ آگ کی تباہی کے درمیان صحیح سلامت نظر آرہا ہے۔ کہا جاتا ہے...
- Advertisement -spot_img

مزید خبریں

- Advertisement -spot_img
error: آپ اس تحریر کو کاپی نہیں کرسکتے اگر آپ کو اس تحریر کی ضرورت ہے تو ہم سے رابطہ کریں