کوئٹہ:دین محمد وطن پال سے
چائلڈ رائٹس موومنٹ کے اراکین نے کہا ہے کہ بلوچستان میں سابقہ ادوار میں سے قانون سازی سے متعلق سب سے زیادہ بل موجودہ دور اسمبلی میں پاس کیے گئے لیکن بدقسمتی سے لوگ اس پر عملدر آمد کے منتظر ہیں۔ سکولوں میں بنیادی سہولیات ہے نہ ہی چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیا گیا۔ میر بہرام لہڑی، شمس الملک، فاطمہ ننگیال خان، فرحت تسنیم، سحرش ناز، داود خان، علاوالدین، ارباب تیمور کاسی، منظور الحق پانیزئی، محمد شعیب، عدنان اور دیگر نے پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سی آر ایم (چائلڈ رائٹس موومنٹ) 32 تنظیموں کا ایک اتحاد ہے جس کا مقصد بچوں سے متعلق مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔ سی آر ایم صوبہ بھر میں بچوں کے حقوق، قوانین اور بچوں سے متعلق مسائل کو اجاگر کرنے کے حوالے سے 20 روزہ مہم چلائی جانیوالے مہم کا حصہ ہے۔ اس حوالے سے بچوں کے حقوق اور قوانین پر عملدر آمدا کے حوالے سے لوگوں میں شعور و آگاہی بیدار کرنے کے لیے مختلف پروگرام تربیت دیئے گئے ہیں۔ اس وقت صوبہ بھر میں بچوں سے متعلق بنائے گئے قوانین پر عملدر آمد نہیں ہورہا۔
بچوں سے متعلق قوانین پر عملدرآمد سے متعلق سی آر ایم کے اراکین کا کہنا تھا کہ حکومت بلوچستان کی فروری 2014 ء میں فری اینڈ کمپلسری ایجوکیشن ایکٹ پاس کیا۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس ایکٹ کو تاحال عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا۔ صوبائی وزیر تعلیم خود اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ صوبہ میں 18 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں ۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ سارے بچے مختلف قسم کے چائلڈ لیبر کا شکار ہوسکتے ہیں۔ 5 ہزار کے قریب پرائمری اور مڈل کی سطح پر سکول بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔حکومت بلوچستان نے 2014 ء میں بورسٹل انسٹی ٹیوٹ ایکٹ پاس کیاجس مقصدنو عمر قیدی بچوں کی استعدادکاری تھا جس پر اب تک عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ اس سلسلے میںصوبائی اسمبلی کے رکن سردار عبدالرحمن کھیتران نے اسمبلی فلور پر اس کا خدشہ ظاہر کیا تھاکہ نو عمر قیدی بچوں پرتھانوں اور جیلوں میں تشدد کا ہونا ایک خطرناک رجحان ہے۔ لہذا بورسٹل انسٹی ٹیوٹ کا قیام ناگزیر بن چکا ہے۔
سی آر ایم کے اراکین کا کہنا تھا کہ تعلیم ایک اہم شعبہ ہے۔ جس کے بغیر زندگی نامکمل ہے۔ سماجی تنظیم اثر کے رپورٹ کے مطابق سکولوں میںبنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے سالانہ 46 فیصد بچے اور 55 فیصد بچیاں سکول چھوڑنے پر مجبورہیں۔کوئٹہ شہر اور گرد نواح میںہزاروں بچے گیراجوں میں کام کرتے نظر آتے ہیں۔ آئی ایل اُو کے 2013 ء میں جاری ہونیوالے رپورٹ کے مطابق لورالائی کے کول مائنز میں 500 کے قریب بچے کام کرتے ہیں۔ اسی طرح کوئٹہ شہر میں دس ہزار کے قریب بچے تعمیرات کاموں، کچرہ چننے اور گیراجوں میں کام کرتے نظر آتے ہیں۔ جس کے باعث ان بچوں کی نفسیاتی اور اخلاقی زندگی پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سی آر ایم کے اراکین نے صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری سے اپیل کی کہ وہ حکومت کی معیاد ختم ہونے سے پہلے تاریخی اقدامات کرتے بچوں سے متعلق مسائل توجہ دے اور حل کرنے کیلئے اقدامات اٹھائیں تاکہ ہمارا مستقبل محفوظ ہوسکے۔