کوئٹہ: دین محمد وطن پال سے
بلوچستان اسمبلی میں حکومتوں کا وقت سے پہلے خاتمہ ایک روایت بن چکا ہے۔ اگر چہ پاکستان میں دوسری بار اسمبلیاں اپنی مدت پوری کررہی ہےلیکن بلوچستان میں کسی بھی قائد ایوان یا حکومت کو اب تک مدت پوری کرنے کا سہرہ سجانے نہیں دیا گیا۔ بلوچستان کے تیسرے وزیراعلیٰ نےعدم اعتماد تحریک کے باعث استعفیٰ گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی کو جمع کردیا۔ جسے فوری طور پر منظور کردیا گیا۔ جبکہ وزیراعلیٰ کے مستعفی ہونے کے بعد صوبائی کابینہ کو تحلیل کردیا گیا ہے اور مشیئر بھی مستعفی ہوچکے ہیں.
بلوچستان میں وزیراعلیٰ کو اس وقت سیاسی بحران کا سامنا کرنا پڑا جب حکومت کے چند مہینے رہ چکے ہیں۔ عدم اعتماد تحریک کسی اتحادی جماعت کی جانب سے نہیں بلکہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے اراکین کی جانب سے جمع کی گئی۔ جس پر شروع میں صرف 14 اراکین نے دستخط کئے تھے۔ جس کے بعد دونوں جانب جوڑ تھوڑ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے سے پہلے اپوزیشن لیڈ مولونا واسع نے میڈیا سے بات چیت میں واضح کیا کہ انہیں 40 سے زائد اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ اتحادی جماعتوں کے مزید اراکین بھی اس تحریک کا حصہ بنیں گے۔
اگر چہ پاکستان میں تیسری بار اسمبلیاں اپنی مدت پوری کررہی ہے لیکن جمہوری جماعتوں کی جانب سے اسے دوسری جمہوری اسمبلیاں کہا جارہا ہے۔ بدقسمی سے اب تک وجود آنیوالی اسمبلیوں میں نہ تو وفاق میں کوئی قائد ایوان اپنی مدت تک رہ سکے اور نہ ہی بلوچستان میں کوئی قائد ایوان اپنی مدت پوری کرسکے۔ سابقہ ادوار میں کسی سیاسی کشیدگی کے باعث 58-2Bکی روشنی میں صدر اپنے اختیارات کے ذریعے اسمبلیاں توڑ دیتا تھا یا پھرکسی آمریت کے آنے سے اسمبلیوں کو تحلیل کیا جاتا تھا۔
بلوچستان اسمبلی کی 45سالہ پارلیمانی تاریخ میں صرف ایک وزیراعلیٰ جام محمدیوسف (مرحوم ) نے آئینی مدت پوری کی ۔ جن کا تعلق پاکستان مسلم لیگ(ق) سے تھا۔ جام محمدیوسف (مرحوم )نے اپنی آئینی مدت پوری کرلی ہے جس نے 4سال 11ماہ اور18دن حکومت کی ۔ تاہم جمہوری حلقوں کی جانب سے اس دور کے اسمبلی کو جمہوری اور عوام کیجانب سے منتخب اسمبلی تسلیم نہیں کیا جارہا کیوں کہ وہ اسمبلی ایک آمریت کی نگرانی میں وجود میں آئی تھی۔
بلوچستان کا وجود بحیثیت صوبہ 1970 ء میں ون یونٹ کے ٹوٹ جانے کے بعد آیا ۔ 1972 میں پہلی صوبائی اسمبلی تشکیل دی گئی ۔ اس وقت سے لے کر آج تک تین بار وزرائے اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی جاچکی ہے۔عدم اعتماد کےتحریک کا سامنا کرنیوالے وزراء اعلیٰ میں میر تاج محمد جمالی، سردار اختر جان مینگل اور حالیہ وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ خان زہری شامل ہیں۔ اس پہلے دونوں وزراء بھی تحریک عدم اعتماد کے بعد فوری طور پر مستعفی ہوگئے تھے۔