کوئٹہ: دین محمد وطن پال سے
نیشنل پارٹی کی خاتون رکن صوبائی اسمبلی یاسمین لہڑی اور دیگرنے کہاہے کہ جب تک پاور اسٹرکچر مائنس وومن بنایاجاتارہے گا اس وقت تک ہم بطور ملک وقوم اور معاشرے کے ترقی کی دوڑ میں دوسروں سے پیچھے رہیںگے،خواتین کو درپیش مشکلات اور مسائل کیلئے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو روٹین سے ہٹ کر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے ،عاصمہ جہانگیر سے بڑھ کر کوئی رول ماڈل نہیں ہوسکتا اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خواتین کو ظلم اور ناانصافیوں کے خلاف اٹھ کھڑاہوناہوگا ،صنفی امتیاز کے خاتمے اور خواتین کو درپیش مشکلات ومسائل کے حل کیلئے ہمیں اپنے سوچ اور رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی ،مثبت رویے اور مستقل مزاجی کے ذریعے ہی منزل مقصود تک پہنچاجاسکتاہے ۔
بلوچستان بوائے سکائوٹس ایسوسی ایشن میں یونائٹیڈ نیشن وومن کے زیر اہتمام یو این والنٹیئرز کی اشتراک سے عالمی یوم خواتین کے موقع پر منعقدہ تقریب سے ڈائریکٹر بہبود ونسواں انعام الحق ،ممتاز سماجی ورکر ثریہ الہ دین ، ڈاکٹر رشیدہ پانیزئی، اسٹیشن ڈائریکٹرریڈیو پاکستان کوئٹہ سہیل خٹک ،یواین وومن کی ریحانہ خلجی ،طلعت جہاں ودیگر نے خطاب کیا۔تقریب کے دوران رضاکاروں نے اپنی تجربات میں شرکاء سے شیئر کئے جبکہ چانن گروپ کی جانب سے خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کے حوالے سے تھیٹر کا مظاہرہ بھی کیا گیا۔
رکن صوبائی اسمبلی یاسمین لہڑی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مثبت رویوں اور مستقل مزاجی کے بغیر تبدیل لانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک ہم تمام سیگمنٹ کو آن بورڈ نہیں لیںگے اس وقت تک ترقی کے دوڑ میں پیچھے ہی رہیںگے ،ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے کردار کے ساتھ دوسروں کے مثبت کردار اور کام کو سپورٹ اور پروموٹ کریں بلوچستان کے متعلق غربت اور پسماندہ ہونے سے متعلق تاثر ٹھیک نہیں کیونکہ معدنیا ت کے لحاظ سے یہ سب سے بڑا اور مالا مال صوبہ ہے ہمیں حالات بدلنے کیلئے سوچ اور رویے تبدیل کرناہونگے ویسے سچ یہ ہے کہ ہمیں مشکلات ضرور درپیش ہیں لیکن اگر ہم چاہیے تو تبدیلی لاسکتے ہیں اس کیلئے معاشرے کے افراد کے رویوں کی تبدیلی بہت زیادہ ضروری ہے مثبت انداز میں کام درپیش مسائل اور رکاوٹوں کے خاتمے کا موجب بنتی ہے۔
مقررین نے کہاکہ بدقسمتی سے پاور اسٹرکچر کو مائنس وومن بنانے کے باعث ہم ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں جو خواتین ملک وقوم کی خدمت کیلئے آگے آتی ہے اس سے بہت زیادہ مشکلات کاسامنا کرناپڑتاہے شہری آبادی سے تعلق رکھنے والی خواتین کو پالیسی ساز اداروں اور دیگر تک پہنچ کر صوبے کی دور دراز خواتین کیلئے رول ماڈل بننا ہوگا ان کاکہناتھاکہ عاصمہ جہانگیر سے بڑھ کر خواتین میں کوئی رول ماڈل نہیں انہوں نے ہمیشہ مظلوموں کاساتھ دیا بلکہ ظلم کیخلاف ہر طرح کی مشکل حالات میں صدائے حق بلند کی اس کا تعلق بھی ہمارے ہی ملک اورمعاشرے سے تھا ۔
مقررین کاکہناتھاکہ جینڈرپالیسی میں بلوچستان سب سے سبقت لے گیاتھا 2013ء میں نہ صرف جینڈرپالیسی بنائی گئی بلکہ اس کی منظوری بھی دی گئی تھی انہوں نے کہاکہ ورلڈ اکنامک فورمز اور دیگر کے اعداد وشمار سے پتہ چلتاہے کہ صنفی امتیاز کے خاتمے کیلئے ابھی بہت زیادہ کام کرنا باقی ہے اور اس میں شائد صدیاں لگیں لیکن اگر تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے اپنے کردار اداکریں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان اور بلوچستان میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ملک وقوم کی ترقی میں کردار ادانہ کرسکیں ۔
مقررین نے خواتین کوٹہ پرعملدرآمد کا بھی مطالبہ کیا اور کہاکہ مرد اور عورت گاڑی کے دوپہیوں کی طرح ہے جس کے باعث معاشرے کی ترقی ممکن نہیں ،انہوں نے کہاکہ ہنرمند خواتین ملک اور صوبے کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کرداراداکرتی ہے جینڈرایکوٹی کیلئے جدوجہد اپنی جگہ لیکن خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ناانصافیوں کیلئے سب کو مل کر کرداراداکرناہوگا۔زینب اور عاصمہ جیسی بچیوں کو نہ صرف حوس کانشانہ بنایاگیا بلکہ ان کو موت کے گھاٹ بھی اتار دیاگیااس سلسلے میں میڈیا کی جانب سے 9، دس دن تک ہی صدائے حق بلند کی جاتی رہی اب خاموشی سی چا گئی ہے جو صحیح نہیں ،سزا صرف زبانی حد تک نہیں ہونی چاہیے بلکہ عملی سزائیں ہی معاشرے میں خرابیوں اور جرائم کا خاتمہ کرسکتی ہیں ۔
مقررین نے مختلف اداروں اور دفاتر میں خواتین کیلئے الگ کمروں ،واش رومز اور دیگر سہولیات نہ ہونے پر افسوس کااظہار کیا اور مطالبہ کیاکہ اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے فوری اقدامات کی ضرورت ہے مقررین کاکہناتھاکہ یہ تاثر صحیح نہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتاہے بلکہ ہر کامیاب عورت کے پیچھے بھی مرد کا ہاتھ ہواکرتاہے ۔تقریب کے آخر میں مختلف کیٹیگریز میں نامیاں کارکردگی کامظاہرہ کرنے والی خواتین میں ایوارڈز تقسیم کی گئی۔