کوئٹہ: دین محمد وطن پال سے
ملیریا کا مرض پیراسائیٹ پلازموڈیم سے لاحق ہوتا ہے۔ جو مچھر کے ذریعے ایک انسان سے دوسرے میں جلا جاتا ہے۔ ملیریا کے مچھر عموماً صاف پانی کی سطح پر انڈے دے کر اپنی نسل کو بڑھاتے ہیں۔ ملیریا کے تدارک اور ملیریا کو ختم کرنے کے سلسلے میں مختلف ممالک نے بہتر نتائج حاصل کئے اور ملیریا کی شرح کم کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ مگر ان کی کوششوں کو مستقل بنیادوں پر استوار اور قائم رکھنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا بہت ضروری ہیں۔ تاکہ ملیریا کو دنیا سے ختم کیا جاسکے اور اسی دوران ملیریا کے تدارک، بروقت تشخیص، علاج اور اس سے بچائو پر کافی توجہ درکار ہوگی۔
کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ملیریا کنٹرول پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر کمالان گچکی، ڈاکٹر سرمد، نصیر حمل اور دیگر نے کہا کہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں آج ملیریا جیسے موذی مرض کے روک تھام کا دن منایا جارہا ہے۔ جس کا مقصد پالیسیوں پر دوبارہ نظرثانی اور اس کے روک تھام کے لیے اقدامات اٹھانا ہے۔ ملیریا کا شمار ان خطرناک ترین بیماریوں میں ہوتا ہے جس سے لاکھوں کی تعداد میں عوام براہ راست متاثر ہورہے ہیں۔ بلوچستان میں ملیریا کی سالانہ شرح ایک ہزار میں سات تک بڑھ چکا ہے۔ جوکہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔ پاکستان میں سالانہ تقریباً 16 لاکھ افراد ملیریا کے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ملیریا کے اس مرض سے اموات بھی واقع ہوتی ہے۔
ملیریا کی مرض سے خون کی کمی، خاص طور پر حاملہ خواتین میں، قبل از وقت پیدائش، کم وزن کے بچوں کی پیدائش اور بیماری کی وجہ سے اسکول اور کام سے غیر حاضری کے مسائل جنم لیتے ہیں جو بیماری سے بڑھ کر زنگی کو براہ راست متاثر کرتی ہیں۔ ملیریا بیماری کے دوران علان ہونے کے بعد بھی کافی دنوں تک کاردگی کی صلاحیت کو براہ راست متاثر کرتا ہے۔ اس مد میں بلوچستان میں ملیریا کنٹرول پروگرام نے صوبہ بھر میں 1 ہزار 110 کے قریب مائیکرو سکوپی اور ڈی آر ٹی سینیٹرز قام کئے ہیں۔ جن کی تشخیص کردہ رپورٹ کی کوالٹی جانچنے کیلئے صوبائی سطح پر ایک ملیریا ریفرنس لیبارٹری بھی قائم کی گئی ہے۔