تحریر:عبدالمتین اخونزادہ
برقی پتہ:۔ unreath17@gmail.com
انسانی زندگی روز اول سے تعلیم و ہنر، خوشی و راحت، معاشی آسودگی، ذہنی خود نمائی اور ابدیت کے اعلیٰ تصور کا حامل رہی ہیں کلچر و ثقافت اور رسوم و رواج، اسی تنوع و وسعت اور معاشرتی ضروریات پوری کرنے کے لئے ترتیب دئیے گئے ہیں۔ بلاشبہ ثقافت و کلچر، ہزاروں سال سے چلے آرہے ہیں اور ہر قوم کو اپنے روایات و رسوم پر فخر ہوتا ہے۔
آئیے! ہم پشتونوں کے تاریخی و ثقافتی اْمور میں تبدیلی و توانائی کی نئی راہوں پر بحث کرتے ہیں اور ایک مثبت و دیر پا تبدیلی کے لئے نئے مکالمے کی بنیاد رکھتے ہیں۔ پشتون و افغان تاریخی طور پرذہین، تعلیم یافتہ، مہمان نواز اور ہر دور میں مثبت و باوقار کردار ادا کرتے آئے ہیں پشتونوں کی شاندار ماضی اور بھرپور تاریخی کردار پر، وسیع لٹریچر و دلائل موجود ہیں۔
پشتون بحیثیت قوم، اجتماعی طور پر غلامی و جبر قبول کرنے سے نا آشنا رہا ہے۔ مگر تاریخ کی ستم ظریقی دیکھئے کہ حالات کی تبدیلی کا ہم بحیثیت قوم بروقت ادراک نہ کرسکیں۔
٭ جب پہیہ ایجاد ہوا اور دنیا زرعی دور سے صنعتی دور کی طرف منتقل ہوئی
٭ جب بجلی ایجاد ہوئی اور ابلاغ کے ذرائع آنا شروع ہوئے
٭ جب ٹیکنالوجی و انٹرنیٹ ایجاد ہوئی اور اس کا استعمال عام ہوا۔
ان تینوں ادوار کا پشتون بحیثیت قوم بروقت ادراک نہیں کرسکی اور نہ ہی پیش بندی و منصوبہ بندی، اپنے حصے کا اقوام عالم کے تیز رفتار دوڑ میں ٹھیک طریقے سے پیش کرسکیںاس کشمکش اور کمزوری میں بلاشبہ، ہمارا علم و عمل سے نا آشنا قبائلی نظام، مذہب و مذہبی شخصیات و اداروں کا جامد و کمزور کردار اور نئے پن و تبدیلی کو قبول نہ کرنے کی ذہنیت و رویہ کا بڑا بنیادی حصہ رہا ہیں۔
فطری قوانین، الہامی وحی اور مذہب کا کردار، معاشروں میں ہمیشہ مثبت و دیرپا رہا ہے اور اجتماعی ترقی کا زینہ بلند کرنے کا ذریعہ رہا ہے مگر بدقسمتی سے پشتون قوم میں پچھلے ایک ہزارئیے سے مذہبی جمود رہا جو بحیثیت مجموعی مسلمان اْمت کا مسئلہ رہا ہے۔
پشتون دانشوروں و ادیبوں کو لازماً گہرائی سے اس امر کا جائزہ لینا ہوگا کہ آخر پشتونوں و افغانوں کے درمیان اسلام بطور مذہب، جو زندہ کردار ادا کرنے کا حامل ضابطہ حیات و دین فطرت ہے کیونکر جمود و تنازعے کا شکار رہا حالانکہ ہمارے قریبی ہمسایہ و ثیال اقوام ایرانی و ترکیوں نے مذہبی قیادتوں کے ہاں امن و ترقی کا پائیدار سفر شروع کیا ہے۔ پشتونوں کو اس امر کی طرف توجہ دینا ہوگی کہ لمحہ موجود میں اْن کی بقاء رواداری، امن، تعلیم و ٹیکنالوجی اور تبدیل و توانائی قبول کرنے میں ہے۔
ٹیکنالوجی اور ابلاغ کے نئے ذرائع، ہمارے فرسودہ روایات اور سادگی و جہالت پر مشتمل قبائلی نظام اور جامِد مذہبی تصورات کو پارہ پارہ کررہے ہیں اسلئے، آج ہم منصوبہ بندی اور نئے زمانے و حالات کے مطابق ہتھیار و تدابیر کرنے کے بجائے فریاد و ماتم کناں ہیں۔ ہمیں جلد از جلد اس روئیے کو ترک کرکے ہوش و عقل مندی کے ساتھ، نئی دنیا کے آداب و رفتار کو قبول کرنا ہوگا۔
پشتونوں کے درمیان نظریاتی تقسیم، افکار و آراء کا افتراق اور تنازعہ افغانستان، طویل تر مہیب سایوں و پردوں میں چھپ چکا ہے جس کا اب آسانی سے سِرا و معقول راستہ، ہمارے اچھے ادیبوں و دانشوروں کو نظر نہیں آتا جس کی بنیادی وجہ اپنے اپنے خیالات و نظریات پر جم کر لڑنا ہے۔ بنیادی اْصول ہے کہ جھگڑے و تقسیم کے دونوں فریق حق پر نہیں ہوتے اور حقائق کے قریب نہیں ہوتے ہمیشہ مکالمہ، رواداری اور جرگہ، نیا و ہم آہنگ راستہ و سلیقہ تجویز کرتا ہے۔
پشتونوں کا المیہ ہے کہ ہم اب تک مکالمے و جرگے کے روادار نہیں ہوئے ہیں۔ میں کسی ایک فریق کو ملامت اور دوسرے کو شاباش نہیں دے رہا ہوں بلکہ میں بحیثیت مجموعی پشتون ادیبوں و دانشوروں، مرد و خواتین اور نوجوانوں سے خواستگار ہوں کہ آخر دوسروں کے نظریات و افکار پر ہم کب تک باہمی تقسیم در تقسیم اور آویزش کے شکار ہونگے آج وقت ہے کہ ہم اپنے کردار، نظریات، اقدار و رسوم اور اپنے مفلوک الحال و درد زدہ سوسائٹی کا جائزہ لیں اور بے جاء تنقید، الزام تراشیوں، ذہنی عیاشیوں اور بے وقت پیغوروں کے بجائے حقائق اور بدلتی دنیا کے ضروریات کا ادراک کریں۔ تعلیم و تدریس، ٹیکنالوجی اور بدلتے حالات میں معاشی اقدار کا تعین ثقافت و کلچر سے ہم آہنگ ہوں تب قومیں ترقی کرتی ہیں پشتون ثقافت و کلچر، اذکار رفتہ اور جمود کا شکار رہا ہے جس میں نوجوانوں اور بچوں کے حقوق و مسائل، خواتین اور بچیوں کے درد و الم کا ذکر نہیں ہے اور اگر ہے تو پرانے زمانے کے نقشے و آداب کے مطابق ہیں۔
21 ویں صدی کے ٹیکنالوجی کا تقاضا ہے کہ
٭ ہم نئے لٹریچر تخلیق کریں۔
٭ مادری زبان کو تعلیم و ہنر کا ذریعہ بنائے۔
٭ ٹیکنالوجی کے استعمال کو فتویٰ بازی اور ڈنڈے سے نہ روکیں۔ بلکہ اس کے مثبت و توانا استعمال اور Tools کو رائے عامہ کی تبدیلی و ترقی کا ذریعہ بنائے۔
نظریاتی تقسیم و خلیج کو بڑھانے، اشتعال کا ذریعہ بنانے اور دہشت گردی کے بجائے رواداری، نرمی اور آبرو مندانہ طریقے سے مکالمے کا ذریعہ بنائے اور اپنے طویل و عزت مندانہ تاریخ سے مثبت روایات اور برداشت و تحمل کو اْدھار لے کر عصر حاضر کی ضروریات و توانائی کے حصول کے لئے مکالمے و جرگے کا آغاز کریں تاکہ ہم قتل و غارت گری، بے عزتی و بربادی، بھوک و جہالت اور فرسودہ خیالات و غلامانہ نظریات سے آزاد ہو کر، علم و ہنر اور ٹیکنالوجی و عزت کی طرف قدم اْٹھا سکیں۔
پشتون دانشوروں، ادیبوں، علماء کرام قائدین و قبائلی مشران اور کابل و کوئٹہ میں حکومتی منصب داروں کی ذمہ داری ہیں کہ وہ حالات کے جبر اور تبدیلی کی لہر کو سمجھیں اور بدلتی دنیا میں اپنے ذوق و نظریات پر غور کریں۔ آج رسوم و رواج میں خواتین کے نئے حقوق کا تعین کرنا ہوگا۔ مذہبی اقدار اور تقدیر و ایمان کا صوفیت و قبائلی ذہنیت سے تشریح قابل قبول نہیں۔ مادیت اور ضروریات زندگی، سورج کے کِرنوں کی طرح اٹل حقیقت ہیں اور ابدیت، آخرت اور وحی کے بغیر، مغرب کی چکا چوند اور مادی ترقی عبث ہیں اس لئے توازن کے ساتھ کائنات کی فطرت اور انسانی ساخت و تقویم کے لئے بنائے گئے ازلی و فطری قوانین کی روشنی میں، لمحہ موجود کے وسائل و ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے، اپنے کلچر و ثقافت اور اقدار و تہذیب کے نئے پیمانے و زاویے بنانے ہونگے۔ یہ آج کے تیز رفتار زندگی کا زندہ سوال ہے اسے نظر انداز کرنے سے تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔