کوئٹہ:
جامعہ بلوچستان کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس بات کو خوش آئند قرار دیا ہے کہ جامعہ میں تاحال طالبہ یا کسی خاتون ملازم کو ہراساں کرنے کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا ہے ، جامعہ ہراسمنٹ کے بارے میں زیرو ٹالرنس پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ جامعہ بلوچستان میں 40فیصد طالبات زیر تعلیم ہے جو بلوچستان میں قائم دیر جامعات کے مقابلے میں زیادہ ہے۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یواین ویمن کے بلوچستان میں "خواتین پر تشدد "کے عنوان کے تحت جاری سولہ روزہ آگاہی مہم کے سلسلے میں جامعہ بلوچستان میں ایک روزہ سمینار سے یو این وومن کی عائشہ ودود، جینڈر ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین اورنگ زیب علیزئی ، نظامت بہبود و نسواں کی ڈائریکٹر رخسانہ بلوچ، سعدیہ مینگل اور دیگر نے خطاب کیا۔
سیمینار سے خطاب میں وائس چانسلر جامعہ بلوچستان ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا : اس طرح کی پروگرامز کا جامعہ بلوچستان میں انعقاد ایک حوصلہ افزاء اور قابل ستائش عمل ہے ـ کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے معاشرے کو ایک مثبت پیغام موصول ہوتا ہے ـ جامعہ بلوچستان میں چالیس فیصد طالبات زیرتعلیم ہے جو بلوچستان میں قائم دیگر جامعات سے زیادہ تعداد ہے ، لیکن خوش آئند امر یہ ہے کہ تاحال طالبہ یا کسی خاتون ایمپلائ کو ہراساں کرنے کا کوئ واقعہ سامنے نہیں آیا ہے ، جامعہ ہراسمنٹ کے بارے میں زیرو ٹالرنس پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
سمینار کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے عائشہ ودود نے کہا : اقوام متحدہ نے دوہزار دس میں یو این ویمن کی بنیاد رکھی مقصد خواتین کی مسائل کو بہتر طریقے سے اجاگر کرنا اور ان مسائل کا پائیدار حل تلاش کرنا ہے.اورنگزیب علیزئ چیئرمین جینڈر ڈیپارٹمنٹ جامعہ بلوچستان نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہراسمنٹ یعنی وہ عمل جو آپ کو ناگوار گزرے اور خود کو غیرمحفوظ محسوس کرلیے، ان میں جسمانی طور پر چھونا، غیرضروری سوالات، دیکھنا ، نام لینا اور تصویر لینا ہراسمنٹ کے ذمرے میں آتا ہے ـ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہراسمنٹ ایکٹ دو ہزار دس کے مطابق ہراسمنٹ کے دو اقسام ہے زبانی اور غیرزبانی اور اسی طرح اس ایکٹ میں ہراسمنٹ کے عمل کے بارے میں زیرو ٹالرنس ہے ـ کوڈ اف کنڈکٹ، ہراسمنٹ کی تعارف اور ہراسمنٹ کے روک تھام کے شقوں کے ساتھ ساتھ ایکٹ پر عمل درامد کیلئے اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کا قیام کا شق بھی شامل ہے ـ
اورنگزیب علیزئ کا مزید کہنا تھا : ورک پلس پر خواتین کو زیادہ ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، ورک پلس ہراسمنٹ سے مراد وہ جگہیں جہاں پر خواتین کام کرتی ہے جس میں تعلیمی ادارے، کارخانے، دفاتر اور ہسپتال شامل ہے اور ان جگہوں میں ہراسمنٹ کے شکار ہونے والوں میں طالبات، ملازمین، رضاکار اور انٹرنی شامل ہے، جامعہ بلوچستان میں بھی اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ متاثرہ خواتین کی شنوائ ہو۔ سعدیہ مینگل نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ترمیم شدہ کریمنل ایکٹ دو ہزار نو پاکستان پینل کوڈ 509 جو پبلک پلس ہراسمنٹ کے سزا کا تعین کرتا ہے یعنی پبلک پلس میں ہراسمنٹ کے جرم کے مرتکب مجرم کو پانچ لاکھ روپے جرمانہ اور تین سال قید ہوسکتا ہے۔
رخسانہ بلوچ ڈائریکٹر ادارہ برائے ترقی خواتین نے سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا: اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت ویمن ڈویلمپنٹ ڈیپارٹمنٹ قائم کیا گیا اس کا مقصد خواتین کو خودمختیار بنانا ہے اور اسی طرح اقوام متحدہ کے دنیا کو بہتر بنانے کے لیے جو مقاصد پائیدار ترقی کے نام پرمتعین کر رکھے ان مقاصد میں سے ہم ایک مقصد جو صنفی مساوات کے بارے میں ہے ہم اس مقصد کے حصول کیلئے کام کررہے ہیں اور ہمارا بھی بنیادی مقصد صنفی برابری ہے تاکہ ترقی کے عمل میں خواتین برابری کی بنیاد پر ہر سطح میں شریک ہو انہوں نے مزید کہا کہ صوبے کے تین اضلاع میں ہمارے سینٹر کام کررہے ہیں ان سینٹرز کا مقصد تشدد سے متاثرہ خواتین کو میڈیکل، فزیکل اور قانونی امداد فراہم کرنا ہے .2005سے2017تک 825 تشدد کے کیس رپورٹ ہوئے ان مین گھریلو تشدد کے 598 اغواہ کے 99 اور جنسی ہراسمنٹ کے 12 کیس اور غیرت کے نام پر 35 کیس رپورٹ ہوئے جن میں سے زیادہ تر نصیر آباد اور جعفر آباد کے رپورٹ ہوئے ہے.2018میں 21غیرت کے نام پر قتل کے کیس رپورٹ ہوئے ہیں ـ یہ وہ اعداد شمار ہے جو میڈیا میں بھی رپورٹ ہوئے، بہت سے واقعات مصلحت کے تحت اور آگاہی کی نہ ہونے کی وجہ سے رپورٹ نہیں ہوتے۔
خبر: کوئٹہ انڈکس/ عبدالکریم ملاخیل