کوئٹہ؛
بلوچستان میں سماجی تنظیموں کی مدد سے صنفی تشدد کے خلاف فعالیت کے 16دن کا مہم چلایا جائے گا۔ جس میں صنفی تشدد سے متعلق آگاہی دی جائے گی۔ مہم کا آغاز 25نومبر سے شروع ہو کر 10دسمبر تک جاری رہے گا۔ ان 16دنوں میں عورتوں پر ہونے والے تشدد اور جبر کے خلاف دنیا کی تمام عورتوں کی تحریکیں اپنی آواز بلند کرتی ہے۔ فعالیت کے یہ 16دن پوری دنیا میں عورتوں پر تشدد اور جبر کے خلاف جدوجہد کی علامت کے طور پر منائے جاتے ہیں۔ کوئٹہ پریس کلب میں ایوا جی الائنس کے چیئرمین اور اساس پی کے کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر وطن یار خلجی، عورت فاؤنڈیشن بلوچستان کی پروجیکٹ آفیسر یاسمین مغل، بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام (BRSP)کی پروگرام منیجر نسیمہ سلام، نیشنل کمیشن برائے خواتین (NCSW) کی رکن فاطمہ خان، عورت فاؤنڈشن بلوچستان کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر علاؤالدین خلجی،سحر آرگنائزیشن کے اشفاق مینگل اور دیگر نے پریس کانفرنس کے دورا ن صحافیوں کو اس 16روزہ مہم کے سلسلے میں تفصیلی معلومات دیں۔
پریس کانفرنس میں بتایا گیا؛ بلوچستان میں اپنے مہم کا آغاز 25نومبر کو گورنر ہاوس بلوچستان میں منعقدہ تقریب سے کریں گے۔ مہم 10دسمبر 2020 انسانی حقوق کے عالمی دن پر اختتام پزیر ہو گی۔ اس مہم کے دوران پارلیمنٹیرینز کے ساتھ میٹنگ، سیمینار، پینل ڈسکشن کا انعقاد اور، مختلف اضلاع کے نوجوان طلبا و طالبات کے ساتھ صنفی تشدد کے خلاف پروگرام کا انعقاد شامل ہیں۔ مہم کے اختتام پر ایک میگا پروگرام کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔ اس سال ہماری یہ کوشش ہو گی کہ کچھ سرگرمیاں ویب نار پر بھی منعقد کی جائے گی جس میں طالبعلموں کو زیادہ سے زیادہ شامل کرنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ نئے آنے والے نوجوان نسل کو خواتین کے حقوق کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ آگاہی مل سکیں۔
پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کو کہا گیا؛ عورت فاؤنڈیشن، اساس پی کے اور EVAW/G Allianceنے اس موقع پر ایک چارٹر آف ڈیمانڈ میں حکومت سے مندرجہ ذیل مطالبات کئے گئے ہیں۔
1۔ پاکستان کے دوسرے صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی خواتین کی حیثیت کے حوالے سے صوبائی کمیشن جلد از جلد فعال بنایا جائے
2۔ ہم مخلوط صوبائی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ کم عمری کی شادی کی روک تھام کے حوالے سے بل کو فوری طور پر
بلوچستان اسمبلی سے منظور کرایا جائے
3۔ تیزاب سے متاثرہ خواتین کی بحالی اور آبادکاری کے لئے بل اسمبلی میں فل فور لا یا جائے۔
4۔ تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں مقام ِکار پر مرد اور خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون 2016کا نفاذ ہو چکا ہے۔
اس سلسلے میں محکموں میں کمیٹیوں کی تشکیل اور عوامی سطح پر اس کی آگاہی کو یقینی بنایا جائے۔
5۔ گھریلو سطح پر ہونے والے تشدد کے خلاف بنائے گئے قانون کو لاگو کرنے کے لئے قوائد و ضوابط تشکیل دئیے جائیں۔
6۔ ہوم بیسڈ ورکرز کے سماجی اور معاشی تحفظ کے لئے صوبائی سطح پر پالیسی ترتیب اور تشکیل دی جائے، خواتین کی معاشی حالت کو
بہتر بنانے کے لئے ترقیاتی اسکیمیں تشکیل دی جائیں نیز خواتین کی تیار کردہ مصنوعات کو آخری شکل دینے کے لئے صوبائی سطح پر
پروڈکٹ فنیشنگ یونٹس قائم کئے جائیں۔
7۔ بلوچستان میں امن اور بھائی چارے کی فضاء کو بحال کرنے کے لئے حکومتی سطح پر عوام کے تعاون سے پالیسی تشکیل دیجائے۔
8۔ ہم حکومت وقت سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ قدرتی آفات سے بروقت نمٹنے کے لئے صوبائی سطح و ضلعی سطح پر ڈزاسٹر
مینجمنٹ اتھا رٹیز کے علاوہ مخیر حضرات، سول سوسائٹیز کے اراکین، مقامی نمائندوں اور سکاؤٹس کے اشتراک سے ازسر نو
کمیٹیاں تشکیل دے کر منظم کیا جائے تاکہ بوقتِ ضرورت خواتین اور بچوں پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے فعال کردار ادا کر سکیں
9۔ سرکاری اداروں میں تمام سطحوں پر خواتین کو برابری کی بنیاد پر نمائندگی دی جائے۔
10۔ تمام سرکاری اور غیرسرکاری اداروں میں معذور افراد کی آسان رسائی کے لئے اقدامات کئے جائے۔
11۔ سنڈیمن صوبائی ہسپتال میں نفسیاتی صحت کے مرکز قائم کیا جائے۔
12۔ تمام بنیادی مرکز صحت میں موبائل فیسٹیولا سینٹر کا قیام عمل میں لایا جائے۔
13۔ محکمہ سماجی بہبود کے تحت کام کرنے والے مخصوص بچوں کے ادارے میں ماہر نفسیات کی تعیناتی کو عمل میں لایا جائے۔
14۔ ہم تما م سیاسی جماعتوں سے پُر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ جنرل نشستوں پر بھی خواتین کو برابری کی بنیاد پر نامزد کیا جائے۔
15۔ سرکاری اور غیر سرکاری ادارے بشمول ِ سیکریٹریٹ، چیمبر آف کامرس، عدالتیں اور میڈیا ہاوسس میں وومن فرینڈلی سپیس جیسا کہ
ڈے کیئر سینٹر، باتھ روم، آرام گاہ اور معلوماتی ڈیسک کا قیام عمل میں لایا جائے۔
16۔ ایچ آر پالیسی برائے میڈیا ہاوسس کو صنفی حساسیت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا جائے۔
17۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے فوری اور تیز ترین سماعت کے لئے عدالتوں میں موثر اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔
18۔ صوبہ بلوچستان میں ڈویژنل سطح پر دارالامان کا قیام عمل میں لایا جائے اور تشدد سے متاثرہ خواتین کی فوری قانونی رہنمائی اور مقدمات
کو جلد از جلد نمٹانے کے لئے وکلاء پینل کی تعیناتی کو عمل میں لایا جائے۔
19۔ صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتے ہے کہ مخنس (خواجہ سراہ) کے سماجی اور معاشی تحفظ کے لئے صوبائی سطح پر پالیسی ترتیب اور تشکیل دی
جائے اور ان کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لئے حکومتی کوٹہ کے مطابق روز گار فراہم کیا جائے۔
سول سوسائٹی کے تنظیموں کے نمائندوں کا مزید کہنا تھا؛ عورت فاؤنڈیشن نے بلوچستان میں عورتوں کے خلاف تشدد کی صورت حال سے متعلق اپنی نو ماہ کی رپورٹ جنوری تا ستمبر 2020کوئٹہ میں جاری کررہی ہے۔ رپورٹ عورتوں کے خلاف تشدد کے ہونے والے واقعات پر جمع کردہ اعداد و شمار پر مشتمل ہے۔ جو کہ عورت فاؤنڈیشن کے قومی پروگرام پاکستان میں عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کے اعداد و شمار کا تجزیہ اور پالیسی مرتب کرتا ہے۔ عورتوں کے خلاف تشدد ایک خطرناک حد تک عالمی مظہر کا باعث بن رہا ہے۔ جس سے بے شمار عورتوں کی عزت و ناموس متاثر ہو رہی ہے۔ تشدد ایک بہت ہی بڑا صنفی امتیاز، غیر مساویانہ رویہ اور معاشرے میں نا ہمواری کا بڑھتا ہو ا ذریعہ بن رہا ہے۔ تشدد کے حوالے سے اعداد و شمار برف پگھلنے کا ایک معمولی ذرہ معلوم ہوتا ہے۔ اس رپورٹ کا مقصد بلوچستان میں عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کی نشاندہی کرناہے۔ جس کا مقصد زیادہ معلوماتی اور مددگار ماحول اور سماجی دباؤ پیدا کرنا ہے۔ عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کے اعداد و شمار مستقبل میں بننے والی پالیسی اور قانونی اصلاحات کے سلسلے میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں، سیاسی جماعتوں اور قانون دانوں کو مصالحتی طریقہ کار، ترقیاتی پالیسیوں کے فریم ورک اور ادارتی نظام کے تحت عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمہ میں مددگار ثابت ہونگے۔
شرکاء نے صحافیوں کو بتایا؛ سال 2020کی رپورٹ کے مطابق پورے بلوچستان میں ہر دوسرے دن ایک عورت قتل یا تشدد کا نشانہ بن جاتی ہے۔ بلوچستان میں پچھلے نو ماہ کے دوران تشدد کے 69 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ تقریباً تمام واقعات رپورٹ شدہ ہیں۔ ان واقعات میں 38خواتین اور8مرد قتل ہوئے جس میں سے 14خوتین اور 8مرد غیرت کے نام پر قتل ہوئیں،3عورتوں نے گھریلوحالات سے تنگ آکر خودکشی کی، 8خواتین پر گھریلو تشددکیا گیا، 6خواتین اغوا ہوئیں اور جبکہ 6 خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ بلوچستان مین خواتین کی حالت زار بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں سیاسی عمل میں شمولیت کے ساتھ ساتھ سیاسی سطح پر مستحکم کیا جائے اور زندگی کے تمام شعبوں میں نمائندگی دی جائے۔خواتین کے حقوق کی سب سے بڑی گارنٹی انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں رائج پدرسری نظام کے ساتھ ساتھ قبائلی رسم و رواج کے تحت عورت کو جائیداد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو اس کے حقوق کے برعکس ہے۔
عورت کو واقعی طور پر اس کا مقام دینا مقصود ہو تو انہیں سیاسی، تعلیمی، انتظامی اور مالی طور پر مستحکم کرنا ہوگا۔ ہم نے آج تک عورت کو انسان ہی نہیں سمجھا۔ ان کو طرح طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ موجودہ صورتحال کرونا کے باعث خواتین پر گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ کرونا کے باعث محنت کش عورت جہاں معاشی طور پر سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے وہاں اسے گھریلو تشدد کا زیادہ سامنا کرنا پڑا۔ بچیوں کی کم عمری اور جبری شادی کے رجحانات سے بچیوں کی صحت پر خطرنات اثرات مرتب ہورہے ہیں جس کی وجہ سے سالانہ ایک لاکھ میں سے 782مائیں بچوں کی پیدائش کے دوران دم توڑ جاتی ہیں۔ پاکستان میں 21فیصد بچیوں کی شادی 18سال کی عمر سے پہلے کر دی جاتی ہے۔ جب تک رویوں میں تبدیلی نہیں لائی جائے گی اُس وقت تک عورت کااستحصال ہوتا رہے گا۔