کوئٹہ:
بلوچستان میں عام انتخابات 2018ء میں بلوچستان عوامی پارٹی کو 13 نشستوں کے ساتھ واضح برتری حاصل ہے۔ صوبے کی اکثریتی جماعت ہونے کے باعث امکان ظاہر کیا جاتا ہے کہ صوبے نیا کا وزیراعلیٰ بھی بلوچستان عوامی پارٹی سے ہوگا۔ 25 جولائی کو ہونیوالے انتخابات میں بی اے پی صوبے کی سب سے اکثریتی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ جبکہ دوسری جانب سابق حکومتی اتحاد کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تینوں اتحادی جماعتوں نے صرف ایک نشست حاصل کرلی ہے۔ پشتونخوا میپ کے علاوہ نیشنل پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کو کسی بھی نشست جیتنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
بلوچستان میں عام انتخابات کا عمل مکمل ہونے کے بعد آنیوالے نتائج میں بلوچستان کی صوبائی نشستوں پر بلوچستان عوامی پارٹی کو 13نشستوں کے ساتھ واضح برتری حاصل ہے۔ جبکہ متحدہ مجلس عمل 10 نشستوں کے ساتھ دوسری نمبر پر اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل )7 نشستوں کے ساتھ تیسری نمبر کی پارٹی ہے۔ مخصوص نشستوں کے ساتھ بلوچستان عوامی پارٹی اس وقت صوبے کی سب سے اکثریتی پارٹی ہے جس کی کل17 نشستیں بنتی ہے۔ جبکہ متحدہ مجلس عمل کی کل 14ن نشستوں کے ساتھ صوبے کی دوسری اکثریتی جماعت ابھرکر سامنے آئی ہے۔
بلوچستان اسمبلی میں کل 65 نشستیں ہیں جن میں جنرل نشستوں کی کل تعداد 51ہے، جبکہ مخصوص نشستوں میں 11 نشستیں خواتین کی اور 3نشستیں اقلیتوںکی ہے۔ جبکہ حکومت بنانے کی 33 نشستیں درکار ہیں۔ اس طرح بلوچستان میں کوئی بھی پارٹی اپنی حکومت نہیں بنا سکے گی۔ بلوچستان عوامی پارٹی، متحدہ مجلس عمل اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل پر مشتمل مخلوط حکومت کے قیام کا امکان ہے۔ تاہم دوسری جانب تینوں جماعتوں کی آزاد منتخب ہونیوالے امیدواروں کو شامل کرنے کی کوشش ہوگی۔ جس سے پارٹی پوزیشن میں واضح تبدیلی آئے گی۔
عام انتخابات 2018ء میں صوبے کی سابق حکومتی اتحاد میں سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی صرف ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ جبکہ نیشنل پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن)کوئیبھی نشست نہیں جیت سکیں۔ تینوں اکثریتی جماعتوں کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف 4 نشستیں، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی 2، عوامی نیشنل پارٹی 3 ، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی 1 اور جمہوری وطن پارٹی ایک نشست حاصل کرچکی ہے۔ جبکہ 3 صوبائی حلقوں کے نتائج ابھی تک باقی ہے۔ واضح رہے کہ بلوچستان کی ایک نشست حلقہ پی بی 35 پر سانحہ مستونگ میں میر سراج رئیسانی کی شہادت کے بعد انتخابات ملتوی کردیئے گئے تھے۔
رپورٹ: دین محمد وطن پال